فرحت کیانی
لائبریرین
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
یہ حسنِ اتفاق ہے یا حسنِ اہتمام
ہے جس جگہ فرات وہیں کربلا بھی ہے
ہم پھر اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں، چراغ بھی ہے، آئینہ بھی ہے
اقبال شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے؟
کلام: اقبال عظیم
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
یہ حسنِ اتفاق ہے یا حسنِ اہتمام
ہے جس جگہ فرات وہیں کربلا بھی ہے
ہم پھر اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں، چراغ بھی ہے، آئینہ بھی ہے
اقبال شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے؟
کلام: اقبال عظیم