محمد تابش صدیقی
منتظم
محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے
ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے
وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے
اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے
ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے
دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل
اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے
اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم لوگ
کاشفِ سرِّ نہاں تھے پہلے
اپنی منزل پہ کبھی تھے فائز
ہم کہ باعزم جواں تھے پہلے
مر کے بےنام و نشاں ہونا ہے
جیسے بےنام و نشاں تھے پہلے
اب ہیں خاموش نظرؔ اتنے ہی
جس قدر شعلہ بیاں تھے پہلے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے
وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے
اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے
ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے
دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل
اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے
اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم لوگ
کاشفِ سرِّ نہاں تھے پہلے
اپنی منزل پہ کبھی تھے فائز
ہم کہ باعزم جواں تھے پہلے
مر کے بےنام و نشاں ہونا ہے
جیسے بےنام و نشاں تھے پہلے
اب ہیں خاموش نظرؔ اتنے ہی
جس قدر شعلہ بیاں تھے پہلے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی