غزل : مریضِ عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ - صفیؔ لکھنوی

غزل
مریضِ عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ
ہوئے تلاشِ اثر میں لبِ دعا گستاخ

حضورِ حسن ہے اے عشق یہ خلافِ ادب
کہ ہو زبان ، دمِ عرضِ مدعا گستاخ

حجابِ حسن ادب آموزِ عشق تھا پہلے
وفورِ نشہ میں خود ہوگئی حیا گستاخ

زمانے بھر سے تو بیگانگی کا ہے برتاؤ
اداشناسوں سے ہے شوخیِ ادا گستاخ

حریمِ ناز میں اُن تک یہ کیا پہنچ سکتا ؟
صفیؔ نہ ہوتا اگر نالۂ رسا گستاخ
صفی لکھنوی
 
Top