رحمت فیروزی
محفلین
مری آنکھوں سے جانے کیوں یہ ویرانی نہیں جاتی
نظر کے سامنے دنیا ہے پہچانی نہیں جاتی
بھری محفل میں تنہائی نصیب اپنا ازل سے ہے
مجھے تنہا ہی رہنا ہے یہ دربانی نہیں جاتی
ہزاروں اٹھتی ہیں لہریں مرے دل کے سمندر میں
اماوس کی بھی راتوں میں جو تغیانی نہیں جاتی
ازل سے پیٹ پر پتھر یہ ہم نے باندھ رکھے ہیں
مگر جو خوں میں شامل ہے وہ سلطانی نہیں جاتی
مری تربت پہ جب آکر دیوانے رقص کرتے ہیں
میں خود بھی جھوم اٹھتا ہوں یہ جولانی نہیں جاتی
کنارے پر کھڑے یہ لوگ کیا جانیں تری وسعت
چھپے ہیں کیا گہر دریا میں حیرانی نہیں جاتی
بڑا پردرد ہے منظر مرے دل کے سنبھلنے کا
غزل میں آج بھی یہ خون افشانی نہیں جاتی
نظر کے سامنے دنیا ہے پہچانی نہیں جاتی
بھری محفل میں تنہائی نصیب اپنا ازل سے ہے
مجھے تنہا ہی رہنا ہے یہ دربانی نہیں جاتی
ہزاروں اٹھتی ہیں لہریں مرے دل کے سمندر میں
اماوس کی بھی راتوں میں جو تغیانی نہیں جاتی
ازل سے پیٹ پر پتھر یہ ہم نے باندھ رکھے ہیں
مگر جو خوں میں شامل ہے وہ سلطانی نہیں جاتی
مری تربت پہ جب آکر دیوانے رقص کرتے ہیں
میں خود بھی جھوم اٹھتا ہوں یہ جولانی نہیں جاتی
کنارے پر کھڑے یہ لوگ کیا جانیں تری وسعت
چھپے ہیں کیا گہر دریا میں حیرانی نہیں جاتی
بڑا پردرد ہے منظر مرے دل کے سنبھلنے کا
غزل میں آج بھی یہ خون افشانی نہیں جاتی