غزل: مسند نشین کے نہ کسی تاجدار کے ۔۔۔

عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک مختصر سی نئی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ امید ہے کہ آپ سب اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

فکرِ معاش ہے نہ غمِ روزگار اب
آزاد ہو گئے ہیں مقدر سے ہار کے

یخ بستگیٔ عشق کا عالم نہ پوچھیے
آتی ہے اب تو یاد بھی اس کی پکار کے!

راحلؔ تو چھوڑ عقل کو، اب دل کی سن کے دیکھ
شاید ہو رازِ زیست ورے خلفشار کے!
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ تابش بھائی ۔۔۔

ہوئے کو فاع باندھنا درست ہے؟
اصل مصرع یوں تھا ۔۔۔ آزاد ہو گئے ہیں ۔۔۔ مگر اس میں فاعل غیر موجود تھا، غزل پوسٹ کرتے ہوئے خیال آیا تو بدل دیا، اور دھیان نہیں دیا۔ فی الحال تو پرانی صورت پر بحال کر دیتا ہوں، بعد کی بعد میں دیکھتے ہیں :)
توجہ دلانے کے لیے شکر گزار ہوں۔
 
بہت شکریہ تابش بھائی ۔۔۔


اصل مصرع یوں تھا ۔۔۔ آزاد ہو گئے ہیں ۔۔۔ مگر اس میں فاعل غیر موجود تھا، غزل پوسٹ کرتے ہوئے خیال آیا تو بدل دیا، اور دھیان نہیں دیا۔ فی الحال تو پرانی صورت پر بحال کر دیتا ہوں، بعد کی بعد میں دیکھتے ہیں :)
توجہ دلانے کے لیے شکر گزار ہوں۔
آزاد ہم ہوئے ہیں۔۔۔
 
عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک مختصر سی نئی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ امید ہے کہ آپ سب اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

فکرِ معاش ہے نہ غمِ روزگار اب
آزاد ہو گئے ہیں مقدر سے ہار کے

یخ بستگیٔ عشق کا عالم نہ پوچھیے
آتی ہے اب تو یاد بھی اس کی پکار کے!

راحلؔ تو چھوڑ عقل کو، اب دل کی سن کے دیکھ
شاید ہو رازِ زیست ورے خلفشار کے!
خوبصورت خوبصورت!!!
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم احسن بھائی
امید ہے کہ آپ سب اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازیں گے۔
کیوں نہیں ضرور -


مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

دیار تو عام ہے -تخصیص چاہیے جیسے :

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

اس مصرع میں دیار باندھ کر اسے اجڑے ہوئے سے خاص کیا گیا ہے اور پھر اس کی نسبت اگلے مصرع کے عالم ناپائیدار سے کی گئی ہے -

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں


بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

خوب ما شاء الله -الله کرے زور قلم اور زیادہ :)
 
السلام علیکم احسن بھائی

کیوں نہیں ضرور -


مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

دیار تو عام ہے -تخصیص چاہیے جیسے :

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

اس مصرع میں دیار باندھ کر اسے اجڑے ہوئے سے خاص کیا گیا ہے اور پھر اس کی نسبت اگلے مصرع کے عالم ناپائیدار سے کی گئی ہے -

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں


بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

خوب ما شاء الله -الله کرے زور قلم اور زیادہ :)
وعلیکم السلام، بہت شکریہ یاسر بھائی، غزل پسند فرمانے کے لیے ممنون و متشکر ہوں۔
آپ نے اچھا نکتہ اٹھایا۔
میں نے در اصل یہاں لفظ دیا عام معنی میں ہی استعمال کیا ہے یعنی وطن کے مفہوم میں ۔۔۔ آپ کی بات درست لگتی ہے کہ کچھ موجودہ صورت میں کچھ تشنگی رہ جاتی ہے ۔۔۔ مگر بحر و قافیہ کی بندش کے سبب کوئی اور اضافت لانا مشکل تھا۔

ایک بار پھر آپ کی توجہ اور پذیرائی کے لیے شکریہ۔
 
آخری تدوین:
عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک مختصر سی نئی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ امید ہے کہ آپ سب اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

فکرِ معاش ہے نہ غمِ روزگار اب
آزاد ہو گئے ہیں مقدر سے ہار کے

یخ بستگیٔ عشق کا عالم نہ پوچھیے
آتی ہے اب تو یاد بھی اس کی پکار کے!

راحلؔ تو چھوڑ عقل کو، اب دل کی سن کے دیکھ
شاید ہو رازِ زیست ورے خلفشار کے!
راحل صاحب ، آپ کی غزل مختصر لیکن مؤثر ہے . :) بہت ساری داد!
مطلع میں یاسر صاحب کا تخصیص کا مطالبہ بجا ہے . اِس کی ایک آسان ترکیب یہ ہے کہ آپ ’خاک‘ کی جگہ ’تیرے‘ یا ’اس كے‘ کر دیں اور یہ قاری پر چھوڑ دیں کہ کس كے دیار کا ذکر ہے . جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ تخصیص کی ضرورت مجھے دوسرے شعر میں ’سبزے‘ كے لیے بھی محسوس ہوئی . ویسے ’غم کی زَرْد سرسوں‘ کی ترکیب خوب ہے . تیسرے شعر پر تابش صاحب کی رائے قابل غور ہے . اگر آپ کو فاعل ’ہَم‘ کی جگہ ’میں‘ قبول ہو تو ’گئے ہیں‘ کو ’گیا ہوں‘ کر دیجئے . اِس طرح فاعل کا ذکر بھی نہیں کرنا پڑیگا اور اس کا اعلان بھی ہو جائےگا . مقطع میں ’تو‘ کی ضرورت نہیں ہے . ایسے اضافی الفاظ سے پرہیز کیجیے .
نیازمند،
عرفان عابدؔ
 
راحل صاحب ، آپ کی غزل مختصر لیکن مؤثر ہے . :) بہت ساری داد!
مطلع میں یاسر صاحب کا تخصیص کا مطالبہ بجا ہے . اِس کی ایک آسان ترکیب یہ ہے کہ آپ ’خاک‘ کی جگہ ’تیرے‘ یا ’اس كے‘ کر دیں اور یہ قاری پر چھوڑ دیں کہ کس كے دیار کا ذکر ہے . جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ تخصیص کی ضرورت مجھے دوسرے شعر میں ’سبزے‘ كے لیے بھی محسوس ہوئی . ویسے ’غم کی زَرْد سرسوں‘ کی ترکیب خوب ہے . تیسرے شعر پر تابش صاحب کی رائے قابل غور ہے . اگر آپ کو فاعل ’ہَم‘ کی جگہ ’میں‘ قبول ہو تو ’گئے ہیں‘ کو ’گیا ہوں‘ کر دیجئے . اِس طرح فاعل کا ذکر بھی نہیں کرنا پڑیگا اور اس کا اعلان بھی ہو جائےگا . مقطع میں ’تو‘ کی ضرورت نہیں ہے . ایسے اضافی الفاظ سے پرہیز کیجیے .
نیازمند،
عرفان عابدؔ
جزاک اللہ عرفانؔ بھائی ۔۔۔ داد و پذیرائی اور گرانقدر ناقدانہ تجزیے کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
ہو گیا ہوں... واقعی اچھی اصلاح ہے، فاعل کی ضرورت نہیں
مطلع کو
مقروض ہم ہیں صرف اسی خاک دیار کے
کیسا رہے گا؟
باقی غزل پسند آئی
 
عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک مختصر سی نئی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ امید ہے کہ آپ سب اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

یخ بستگیٔ عشق کا عالم نہ پوچھیے
آتی ہے اب تو یاد بھی اس کی پکار کے!

راحلؔ تو چھوڑ عقل کو، اب دل کی سن کے دیکھ
شاید ہو رازِ زیست ورے خلفشار کے!
ماشاءاللہ ،
اللہ کریم آپ کے قلم میں خوب برکتیں عطا فرمائیں،
بہت عمدہ اور شاندار غزل
فکرِ معاش ہے نہ غمِ روزگار اب
آزاد ہو گئے ہیں مقدر سے ہار کے
بہت عمدہ شعر ۔پسند آیا
 
ہو گیا ہوں... واقعی اچھی اصلاح ہے، فاعل کی ضرورت نہیں
مطلع کو
مقروض ہم ہیں صرف اسی خاک دیار کے
کیسا رہے گا؟
باقی غزل پسند آئی
داد اور حوصلہ افزائی کے لیے سپاس گزار ہوں استادِ محترم۔
آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر :)
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک مختصر سی نئی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ امید ہے کہ آپ سب اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسند نشین کے، نہ کسی تاجدار کے
مقروض ہم اگر ہیں تو خاکِ دیار کے!

بس غم کی زرد سرسوں تھی سبزے پہ موجزن
اور شور یہ اٹھا تھا کہ دن ہیں بہار کے

فکرِ معاش ہے نہ غمِ روزگار اب
آزاد ہو گئے ہیں مقدر سے ہار کے

یخ بستگیٔ عشق کا عالم نہ پوچھیے
آتی ہے اب تو یاد بھی اس کی پکار کے!

راحلؔ تو چھوڑ عقل کو، اب دل کی سن کے دیکھ
شاید ہو رازِ زیست ورے خلفشار کے!
میری طرف سے داد ہے سر کیجئے قبول
اچھے لکھیں اشعار نکھار وسنوار کے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب راحل بھائی ! اچھے اشعار ہیں !
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

مقطع سے ورے کو اگر پرے کردیتے تو بہتر تھا ۔ یہ لفظ متروک ہے ۔ جدید غزل میں اس کا غیر ضروری استعمال نہ ہو تو میری ناقص رائے میں اچھاہے ۔ ململ میں جینز کا پیوند معلوم ہوتا ہے ۔ بلکہ جینز میں ململ کا پیوند کہئے ۔ :):):)
 
Top