خورشید رضوی غزل : مسکراہت نقش ہے ہونٹوں پہ عبرت کی طرح - خورشید رضوی

غزل
مسکراہت نقش ہے ہونٹوں پہ عبرت کی طرح
نم بہت کم رہ گیا آنکھوں میں حیرت کی طرح

زندگی گزری بہت پُرلطف بھی ، سنسان بھی
سردیوں کی رات کی تنہا مسافت کی طرح

آدمی کی خصلتوں ہی میں ہے اُس کی سرنوشت
ہے مرا رنگِ طبیعت میری قسمت کی طرح

کھیلتی ہیں آج اک دشتِ محن میں بار بار
میرے بالوں سے ہوائیں تیری عادت کی طرح

جانے کس لمحے کوئی محشر بپا ہو جائے گا
سب کے دل میں ایک لمحہ ہے قیامت کی طرح

اُس کی چاہت ہی سہی ، اوروں کی نفرت سے بھی ڈر
یہ بھی پتھر کا نوشتہ ہے ، محبت کی طرح

دو گھڑی کے اِس تماشے میں کبھی ہم کو بھی دیکھ
ہم بھی رہتے ہیں اِس آئینے میں صورت کی طرح
خورشید رضوی
 
Top