غزل: مصوّر کا اگر شہکار ہوں میں

احباب گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک تازہ غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازیے .

مصوّر کا اگر شہکار ہوں میں
تو کیوں اتنا ذلیل و خوار ہوں میں

ہنر مندی سے گو سرشار ہوں میں
زمانے كے لیے بےکار ہوں میں

مرض وہ ہے کہ بس لاچار ہوں میں
گرفتِ نفس کا بیمار ہوں میں

کہاں ہوں، کون ہوں اور کس لیے ہوں
انہیں افکار سے دو چار ہوں میں

زلیخا کی نظر کی جستجو ہے
میں یوسف ہوں، سَرِ بازار ہوں میں

انا کا ایک دریا درمیاں ہے
وہ ہے اُس پار تو اِس پار ہوں میں

چنی ہے خود فضا ئے دشت میں نے
میں گل ہوتا، مگر اک خار ہوں میں

ازل سے دَر حقیقت نیند میں ہوں
تمہیں چاہے لگے، بے دار ہوں میں

جہاں سے بے نیازی کیوں نہ ہوگی
خود اپنی ذات سے بے زار ہوں میں

کہانی مختصر ہے میری عابدؔ
جسے مرنا ہے وہ کردار ہوں میں

نیازمند‘
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:
Top