غزل : ملے سفر میں ہمیں لوگ جا بجا تنہا از: محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

ملے سفر میں ہمیں لوگ جا بجا تنہا
رہِ حیات مقدر ہے کاٹنا تنہا

کسی کی تنہا روی کا مذاق اڑاؤں کیوں
کہ کاٹنا ہے مجھے بھی یہ راستا تنہا

جو اپنے ساتھ لئے اِک ہجوم آیا تھا
ذرا سی دیر میں وہ بھی تھا رہ گیا تنہا

وہ کون تھا جو اُٹھاتا رہا تھا ناز ترے
کبھی تو بیٹھ کے تُو بھی یہ سوچنا تنہا

تمام رات تو ہمراہ تھیں تری یادیں
گُزر گئی جو شبِ غم ، میں ہو گیا تنہا

یہ ٹھیک ہے وہ فروزاں رہا، مگر کیسے
اُجالتا بھری دنیا کو اِک دِیا تنہا

کوئی نہ جان سکا کیفیت دلوں کی حفیظؔ
جومیں اکیلا تھا محفل میں، وہ بھی تھا تنہا
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top