منیب احمد فاتح
محفلین
میں کافی عرصے سے خاموش تھا۔ لیکن چند دوست تقاضا کر رہے تھے کہ کچھ شئیر کروں۔ سو آج ووٹ ڈالنے کی قومی ذمہ داری یعنی قطاری مشقت سے فراغت پائی تو جی کیا کہ ان تقاضوں سے بھی فارغ ہو لوں۔ لہذا ایک غزل پیش خدمت ہے۔ کچھ ثقیل ہے اس کے لئے معذرت:
گر شرحِ نقطہ ہائے حکیمانہ چاہیئے
طبعِ سلیم! عقلِ سلیمانہ چاہیئے
ہے پردگی ظہور کا سامانِ واقعی
معبود بہرِ عبد حجابانہ چاہیئے
مشمولِ اہلِ باغ ہوں ہر چند مثلِ گل
اک رنگِ خودنمائی جداگانہ چاہیئے
ہو جائے کشت و خون مبادا رواج کار
ہر شہر ساتھ جادہِ ویرانہ چاہیئے
شمعِ کلامِ فاتحِ مجذوب کے لئے
وارفتگاں میں خوبئ پروانہ چاہیئے