عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
بَیاض میں کوئی پندرہ سال پرانی ایک غزل نگاہ سے گزری جو خاکسار نے جناب طارق منظور كے مصرعے پر کہی تھی . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
مہتاب و کہکشاں کی مثالوں كے باوجود
تاریک کیوں ہے شہر اجالوں كے باوجود
خوش ہوں کہ اہلِ شہر كے ما بین رسم و راہ
قائم ہے میرِ شہر کی چالوں كے باوجود
محتاط ہو گئے ہیں زمانے کو دیکھ کر
’خوشبو کہیں نہ مشک، غزالوں كے باوجود‘
اے زیست ، تجھ میں اتنی کشش کیوں ہے آج بھی
اندوہ و درد و یاس كے سالوں كے باوجود
کچھ رنج آدمی کو کبھی چھوڑتے نہیں
ساقی ، مۓ طرب كے پیالوں كے باوجود
ہَم ہی میں عیب ہے جو تمہاری نگاہ میں
نا معتبر ہیں نیک خیالوں كے باوجود
غیرت نے میرے سارے دکھوں کو رکھا ہے راز
احباب و اقربا كے سوالوں كے باوجود
ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود
عابدؔ وہ بات جس پہ تھیں پابندیاں ہزار
ہَم کہہ گئے زبان پہ تالوں كے باوجود
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
بَیاض میں کوئی پندرہ سال پرانی ایک غزل نگاہ سے گزری جو خاکسار نے جناب طارق منظور كے مصرعے پر کہی تھی . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
مہتاب و کہکشاں کی مثالوں كے باوجود
تاریک کیوں ہے شہر اجالوں كے باوجود
خوش ہوں کہ اہلِ شہر كے ما بین رسم و راہ
قائم ہے میرِ شہر کی چالوں كے باوجود
محتاط ہو گئے ہیں زمانے کو دیکھ کر
’خوشبو کہیں نہ مشک، غزالوں كے باوجود‘
اے زیست ، تجھ میں اتنی کشش کیوں ہے آج بھی
اندوہ و درد و یاس كے سالوں كے باوجود
کچھ رنج آدمی کو کبھی چھوڑتے نہیں
ساقی ، مۓ طرب كے پیالوں كے باوجود
ہَم ہی میں عیب ہے جو تمہاری نگاہ میں
نا معتبر ہیں نیک خیالوں كے باوجود
غیرت نے میرے سارے دکھوں کو رکھا ہے راز
احباب و اقربا كے سوالوں كے باوجود
ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود
عابدؔ وہ بات جس پہ تھیں پابندیاں ہزار
ہَم کہہ گئے زبان پہ تالوں كے باوجود
نیازمند ،
عرفان عابدؔ