نویدظفرکیانی
محفلین
غزل
میرے ڈر میں سانپ ہیں
یا نگر میں سانپ ہیں
بستیاں ہیں سانپ گھر
ہر نظر میں سانپ ہیں
سب اُٹھا لیں بانسری
سب کے گھر میں سانپ ہیں
جنگلوں کا ڈر بجا
بام و در میں سانپ ہیں
کس کے سائے میں اماں
ہر شجر میں سانپ ہیں
منزلیں ہیں جس طرف
اُس ڈگر میں سانپ ہیں
دوستی بہروپ ہے
ہر بشر میں سانپ ہیں
ہم سپیروں کے لئے
شہر بھر میں سانپ ہیں
نویدظفرکیانی ؔ