عین عین
لائبریرین
غزل
میں بھول گئی ہوں اُسے یہ بات نہیں ہے
یہ بات الگ اُس سے ملاقات نہیں ہے
کتنی یہ بجھی شام ہے چھائی ہے اُداسی
کس طور کہا جائے کہ یہ رات نہیں ہے
اُس شخص کا اقرارِ محبت ہے مجھے یاد
وہ بھول گیا ہو تو کوئی بات نہیں ہے
آنسو مرے ٹھیرے ہیں کہ ٹھیرا ہے مرادل
پہلی سی وہ اُمڈی ہوئی برسات نہیں ہے
ملنے کو تو احباب سے ملتے ہیں ابھی تک
ملنے میں مگر پہلی سی وہ بات نہیں ہے
ہما بیگ