غزل : میں بھوک پہنوں ، میں بھوک اوڑھوں ، میں بھوک دیکھوں ، میں پیاس لکّھوں - اقبال ساجد

غزل
میں بھوک پہنوں ، میں بھوک اوڑھوں ، میں بھوک دیکھوں ، میں پیاس لکّھوں
برہنہ جسموں کے واسطے میں خیال کاتُوں کپاس لکّھوں

سسک سسک کر جو مر رہے ہیں ، میں اُن میں شامل ہوں اور پھر بھی
کسی کے دل میں اُمید بوؤں ، کسی آنکھوں میں آس لکّھوں

لہو کے قطرے بدن کے طائر ، ہر ایک خواہش ہے شاخ میری
کسی زباں میں مہک اُگاؤں ، کسی کے لب پر مٹھاس لکّھوں

تھمے جو بارش تو لوگ دیکھیں ، چھتوں پہ چڑھ کر دھنک کا منظر
میں اپنے دل کو اُجاڑ پاؤں تمام عالم اُداس لکّھوں

مرا سفر ہے سمندر ایسا ، جدھر بھی جاؤں ، بپھر کے جاؤں
کہیں اُچھالوں میں موجِ وحشت ، کہیں میں خوف و ہراس لکّھوں
اقبال ساجد
مئی 1976ء
 
Top