غزل : نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں - اقبال ساجد

غزل
نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں
فراقؔ و فیضؔ و ندیمؔ و فرازؔ کچھ بھی نہیں

نہ ان کا لہجہ نیا ہے ، نہ ان کی سو چ نئی
یہ فکر گر نظریہ طراز کچھ بھی نہیں

لکھیں اُصول مگر اپنی مُنفعت کے لئے
کُھلا یہ راز کہ یہ نعرہ باز کچھ بھی نہیں

غزل لکھے جو فقط اس لئے کہ گائی جائے
میری نظر میں تو وہ شعر ساز کچھ بھی نہیں

پُرانے ناموں کے بوسیدہ اشتہاروں کا
فصیلِ مُلکِ سُخن پر جواز کچھ بھی نہیں

وہ لوگ اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں
ہمیں جو کہتے ہیں جدت طراز کچھ بھی نہیں

ہے نسل نو سے خُدا واسطے کا بیر انہیں
و گر نہ بُغض و حسد کا جواز کچھ بھی نہیں

مشینی دور میں کیا قصۂ لب و رُخسار
حکایتِ شب زُلفِ دراز کچھ بھی نہیں
اقبال ساجد
اگست 1984 گلاب دیوی ہسپتال لاہور
 
Top