فرحان محمد خان
محفلین
غزل
نشاط اور اُداسی نہیں ہے کم سے کم
ہماری آنکھ میں کچھ تیرتا ہے نم سے کم
بہت بھنور بنے دریا میں جو سہار لیے
یہ زندگی کا تلاطم ہے ایک غم سے کم
شروع میں ہوا ہو گا وہ قیس نام کا شخص
ہمارے بعد کوئی ہے اگر تو ہم سے کم
جلے چراغ کی لو پر دھرا ہوا ہے ہاتھ
یہ راز قدر سے زائد ہے اور قسم سے کم
عجیب قصۂ بود و نبود ہے اخترؔ
جہاں وجود ہے افسانۂ عدم سے کم
اختر عثمان
نشاط اور اُداسی نہیں ہے کم سے کم
ہماری آنکھ میں کچھ تیرتا ہے نم سے کم
بہت بھنور بنے دریا میں جو سہار لیے
یہ زندگی کا تلاطم ہے ایک غم سے کم
شروع میں ہوا ہو گا وہ قیس نام کا شخص
ہمارے بعد کوئی ہے اگر تو ہم سے کم
جلے چراغ کی لو پر دھرا ہوا ہے ہاتھ
یہ راز قدر سے زائد ہے اور قسم سے کم
عجیب قصۂ بود و نبود ہے اخترؔ
جہاں وجود ہے افسانۂ عدم سے کم
اختر عثمان