خلیل الرّحمٰن
محفلین
حاضرینِ محفل اور اساتذہ کرام بعد از آداب تسلیمات!
اقبال کے اردو اور فارسی کلام کے مطالب تلاش کرتے کرتے صریرخامہءِ وارث تک رسائی ہوئی اور پھر میں نے خود کو زبردستی کتابِ چہرہ یعنی فیس بُک پروارث بھائی کے حلقہءِ احباب میں شامل کروا لیا۔ اِس سال کے آغاز میں سیاسی درجہءِ حرارت بلند ہونے کی وجہ سے نعرے بناتے بناتے چند ایک دوراہوں اور پھر کثیر مصرعی نظموں پر بھی ہاتھ صاف کر دیے۔
مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ مندرجہ ذیل میں شاعری کی کون سی صنف تحریر شُدہ ہے مگر میرا طریقہءِ واردات یہ تھا کہ پہلے ہم قافیہ الفاظ جمع کرتا گیا۔ پھر اُن کے ساتھ اپنے خیالات اور جملے بھی مُنسلک کر دیے۔ تا حال کسی بھی شاعر سے بالمشافہ ملاقات کا حادثہ نہیں ہو سکا اور اب کالا پانی کاٹنے اور کوئے یار سے کئی سو میل دُور ہونے کی وجہ سے اِس ملاقات کی کوئی اُمید بھی نہیں۔
اِس غزل نما کے اوزان اور تقطیع کی درستگی کے لیے شاید علمِ عروض سے آگاہی کی ضرورت ہے، جس کے نام سے بھی میں بوقتِ پروازِ سُخن واقف نہ تھا۔ آئندہ کچھ وقت ملنے پر اِس عروض نامی جنس سے اُنس پیدا کرنے کا ارادہ ہے۔ فی الحال آپ میری شاعری ملاحظہ فرمائیں اور اپنی رائے سے نوازیں۔ متنازع اشعار پر پیشگی معذرت۔ شکریہ
العارض
خلیل
---------------------
شاید غزل: منتشر خیالات
شاعر: خلیل الرّ حمٰن
بتاریخ : 31 مارچ 2013
---------------------------
عقل جِس دن حوادثِ قدرت سلجھا لے گی
ظلمتِ رنج و یاس پسِ انوار پناہ لے گی
جلا دیا ہے اپنے حصّے کا ایک چراغ
جس سے دُنیا کی خلافتِ افکار ضیاء لے گی
قائل ہو جائیں گے ہم اُن کی شریعت کے
اِمامت اُن کی جب حُجرہِ ضرار گرا لے گی
ڈیڑھ اینٹ سے کم میں تو مسجد بننے سے رہی
مُلا کی ضلالت اور کتنا انتشار پھیلا لے گی
کیا پتہ تھا کہ تابندگی سے خائف ہو کر
معرفت تیری راستہ پُراِسرار بنا لے گی
سیاست سے گُریز پر نہ ہوئے گربہ فروش نادم
ریاست کب اُن سے اِس خیانت کا شمار لے گی
کڑواہٹ ناپسند ہے حاکمِ شہر کو اِس لیے
ہماری صداقت جلد جاں فگار کروا لے گی
شاید کہ رہبر بھی تب کچھ اِدراک کرے
تحریکِ بے منزل جب سر ہزار کٹوا لے گی
آزردہ خاطر و مائلِ شکست ہے یہ سپاہ
جرأتِ للکار کیوں مجھ سے یہ لے گی
عزم پرستوں کو لازم ہے عید منانا
غیرتِ انکار میری جس دن سزا لے گی
آ جائے گا ہم میں بھی ترکِ گناہ کا حوصلہ
حقیقتِ حق جب ہمتِ اظہار بڑھا لے گی
اُس کے وصال کو ایسے تلاش کریں گے ہم
کہ فرقت کی خصلتِ خوار حیا لے گی
پتھڑ برسا دیجئے اُس بستی پر کہ جہاں
دھڑکا ہو کہ اعانتِ مظلوم سنگ پڑوا لے گی
ہاتھ میں ہو گی یہ بھی اُسی دِن جناب
بوتلِ مَے خود کو جب خمار چڑھا لے گی
نظر کو کہاں چھپاتے پھریں گے ہم
نگہتِ پیکر جب شرمندہِ رُخسار کرا لے گی
روح کو سکوں ، دل کو قرار آ جائے گا
عبادتِ دیدار جب وہ مجھے کروا لے گی
اُسکی دولت ہے عارضِ نازک کی پوشاک
مگر میری وفائے تار تار فن کی قبا لے گی
گُزرتے ہیں اُس کوچہءِ ملامت سے سنبھلتے تھمتے
ڈر ہے کہ اُس کی زُلفِ خمدار پھسلا لے گی
خُلد کو جائیں تو، مگر جزائے صبرِ زیست کی بابت
قربتِ حُور اُس پری رُخ سے ملن کو عار ڈالے گی
مت اُلجھا کرو ہر بندہ پرست سے پاگل
تمھاری متانت تمھہیں بےکار مروا لے گی
نکل جائے گا عشق کا سودا جو سمایا ہے
محبت تمھاری جب تمھیں در ِدیوار چُنوا لے گی
خلیلؔ آپ کو لکھنا ہے زیب اُس وقت
عبارت آپ کی جب کردار بنا لے گی
اقبال کے اردو اور فارسی کلام کے مطالب تلاش کرتے کرتے صریرخامہءِ وارث تک رسائی ہوئی اور پھر میں نے خود کو زبردستی کتابِ چہرہ یعنی فیس بُک پروارث بھائی کے حلقہءِ احباب میں شامل کروا لیا۔ اِس سال کے آغاز میں سیاسی درجہءِ حرارت بلند ہونے کی وجہ سے نعرے بناتے بناتے چند ایک دوراہوں اور پھر کثیر مصرعی نظموں پر بھی ہاتھ صاف کر دیے۔
مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ مندرجہ ذیل میں شاعری کی کون سی صنف تحریر شُدہ ہے مگر میرا طریقہءِ واردات یہ تھا کہ پہلے ہم قافیہ الفاظ جمع کرتا گیا۔ پھر اُن کے ساتھ اپنے خیالات اور جملے بھی مُنسلک کر دیے۔ تا حال کسی بھی شاعر سے بالمشافہ ملاقات کا حادثہ نہیں ہو سکا اور اب کالا پانی کاٹنے اور کوئے یار سے کئی سو میل دُور ہونے کی وجہ سے اِس ملاقات کی کوئی اُمید بھی نہیں۔
اِس غزل نما کے اوزان اور تقطیع کی درستگی کے لیے شاید علمِ عروض سے آگاہی کی ضرورت ہے، جس کے نام سے بھی میں بوقتِ پروازِ سُخن واقف نہ تھا۔ آئندہ کچھ وقت ملنے پر اِس عروض نامی جنس سے اُنس پیدا کرنے کا ارادہ ہے۔ فی الحال آپ میری شاعری ملاحظہ فرمائیں اور اپنی رائے سے نوازیں۔ متنازع اشعار پر پیشگی معذرت۔ شکریہ
العارض
خلیل
---------------------
شاید غزل: منتشر خیالات
شاعر: خلیل الرّ حمٰن
بتاریخ : 31 مارچ 2013
---------------------------
عقل جِس دن حوادثِ قدرت سلجھا لے گی
ظلمتِ رنج و یاس پسِ انوار پناہ لے گی
جلا دیا ہے اپنے حصّے کا ایک چراغ
جس سے دُنیا کی خلافتِ افکار ضیاء لے گی
قائل ہو جائیں گے ہم اُن کی شریعت کے
اِمامت اُن کی جب حُجرہِ ضرار گرا لے گی
ڈیڑھ اینٹ سے کم میں تو مسجد بننے سے رہی
مُلا کی ضلالت اور کتنا انتشار پھیلا لے گی
کیا پتہ تھا کہ تابندگی سے خائف ہو کر
معرفت تیری راستہ پُراِسرار بنا لے گی
سیاست سے گُریز پر نہ ہوئے گربہ فروش نادم
ریاست کب اُن سے اِس خیانت کا شمار لے گی
کڑواہٹ ناپسند ہے حاکمِ شہر کو اِس لیے
ہماری صداقت جلد جاں فگار کروا لے گی
شاید کہ رہبر بھی تب کچھ اِدراک کرے
تحریکِ بے منزل جب سر ہزار کٹوا لے گی
آزردہ خاطر و مائلِ شکست ہے یہ سپاہ
جرأتِ للکار کیوں مجھ سے یہ لے گی
عزم پرستوں کو لازم ہے عید منانا
غیرتِ انکار میری جس دن سزا لے گی
آ جائے گا ہم میں بھی ترکِ گناہ کا حوصلہ
حقیقتِ حق جب ہمتِ اظہار بڑھا لے گی
اُس کے وصال کو ایسے تلاش کریں گے ہم
کہ فرقت کی خصلتِ خوار حیا لے گی
پتھڑ برسا دیجئے اُس بستی پر کہ جہاں
دھڑکا ہو کہ اعانتِ مظلوم سنگ پڑوا لے گی
ہاتھ میں ہو گی یہ بھی اُسی دِن جناب
بوتلِ مَے خود کو جب خمار چڑھا لے گی
نظر کو کہاں چھپاتے پھریں گے ہم
نگہتِ پیکر جب شرمندہِ رُخسار کرا لے گی
روح کو سکوں ، دل کو قرار آ جائے گا
عبادتِ دیدار جب وہ مجھے کروا لے گی
اُسکی دولت ہے عارضِ نازک کی پوشاک
مگر میری وفائے تار تار فن کی قبا لے گی
گُزرتے ہیں اُس کوچہءِ ملامت سے سنبھلتے تھمتے
ڈر ہے کہ اُس کی زُلفِ خمدار پھسلا لے گی
خُلد کو جائیں تو، مگر جزائے صبرِ زیست کی بابت
قربتِ حُور اُس پری رُخ سے ملن کو عار ڈالے گی
مت اُلجھا کرو ہر بندہ پرست سے پاگل
تمھاری متانت تمھہیں بےکار مروا لے گی
نکل جائے گا عشق کا سودا جو سمایا ہے
محبت تمھاری جب تمھیں در ِدیوار چُنوا لے گی
خلیلؔ آپ کو لکھنا ہے زیب اُس وقت
عبارت آپ کی جب کردار بنا لے گی
آخری تدوین: