پیاسا صحرا
محفلین
غزل
نگاہِ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے
ہوائے فراق ذرا اور بھی نکھار مجھے
کبھی زباں نہ کھلی عرضِ مدعا کے لیے
کیا ہے پاسِ ادب نے شرمسار مجھے
پرانے زخم نئے داغ ساتھ ساتھ رہے
ملی تو کیسی ملی دولتِ بہار مجھے
پھر اہلِ ہوش کے نرغے میں آ گیا ہوں میں
خدا کے واسطے ایک بار پھر پکار مجھے
بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سو
اڑا رہا ہے کوئی صورتِ غبار مجھے
نہ جانے کون سا ہے شعبدہ تعاقب میں
کہ آج اس نے کہا ہے وفا شعار مجھے
جو آپ آئیں تو یہ فیصلہ بھی ہو جائے
دکھائی دیتا ہے موسم تو خوشگوار مجھے
ہزار بار سکونِ حیات کی حد میں
ہزار بار کیا دل نے بے قرار مجھے
مرے شباب ! مری زندگی! مرے ماضی
زبانِ حال سے اک بار پھر پکار مجھے
شراب زہر ہے اے پیرِ میکدہ ، لیکن
نہیں ہے اپنی طبیعت پہ اختیار مجھے
وہ بات جس پہ مدارِ وفا ہے یزدانی
وہ بات کہنا پڑے گی حضورِ یار مجھے
یزدانی جالندھری
نگاہِ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے
ہوائے فراق ذرا اور بھی نکھار مجھے
کبھی زباں نہ کھلی عرضِ مدعا کے لیے
کیا ہے پاسِ ادب نے شرمسار مجھے
پرانے زخم نئے داغ ساتھ ساتھ رہے
ملی تو کیسی ملی دولتِ بہار مجھے
پھر اہلِ ہوش کے نرغے میں آ گیا ہوں میں
خدا کے واسطے ایک بار پھر پکار مجھے
بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سو
اڑا رہا ہے کوئی صورتِ غبار مجھے
نہ جانے کون سا ہے شعبدہ تعاقب میں
کہ آج اس نے کہا ہے وفا شعار مجھے
جو آپ آئیں تو یہ فیصلہ بھی ہو جائے
دکھائی دیتا ہے موسم تو خوشگوار مجھے
ہزار بار سکونِ حیات کی حد میں
ہزار بار کیا دل نے بے قرار مجھے
مرے شباب ! مری زندگی! مرے ماضی
زبانِ حال سے اک بار پھر پکار مجھے
شراب زہر ہے اے پیرِ میکدہ ، لیکن
نہیں ہے اپنی طبیعت پہ اختیار مجھے
وہ بات جس پہ مدارِ وفا ہے یزدانی
وہ بات کہنا پڑے گی حضورِ یار مجھے
یزدانی جالندھری