محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن
نہ ساقی ہے نہ پیمانہ ہے باقی
فقط صحرا میں دیوانہ ہے باقی
نہ اب وہ مور باقی ہیں نہ جنگل
مگر اک رقصِ مستانہ ہے باقی
یہ کیسی آندھیاں سی چل رہی ہیں
نہ گلشن ہے نہ ویرانہ ہے باقی
اگرچہ جل چکی رسی کبھی کی
مگر اک فخرِ شاہانہ ہے باقی
عیاں ہے اپنی گمراہی سے اتنا
کہ دل میں اپنے بت خانہ ہے باقی
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ
غنیمت ہے کہ مے خانہ ہے باقی
ہے دل میں آنے والی کل کا دھڑکا
یہی اک خوف انجانا ہے باقی
تمھارے دل میں رونق ہو چکی ہے
مرے دل میں تو ویرانہ ہے باقی
سزا تو کاٹ لی دل نے خطا کی
مگر آنکھوں کا جرمانہ ہے باقی
یونہی جلتی رہے گی شمع اے دل
کہ جب تک کوئی پروانہ ہے باقی