خورشید رضوی غزل : وہی بہار وہی شغلِ باد پیمائی - خورشید رضوی

غزل
وہی بہار وہی شغلِ باد پیمائی
وہی خیال وہی اُس کی بے سروپائی

کُھلے ہوئے ہیں دریچے ہر ایک سمت مگر
کسی طرف سے کچھ اپنی خبر نہیں آئی

محبتیں بھی کیں ، اور نفرتیں بھی کیں
نہ آدمی نے مگر آدمی کی تہہ پائی

یہ اعتماد تو دیکھو بھرے سمندر میں
حباب کھینچ کے بیٹھا حصارِ تنہائی

تم اپنے آپ میں گُم تھے توایک عالم تھا
برے کو دھیان پڑا ذوقِ عالم آرائی

زمانے کا مرے خوابوں پہ کچھ اثر نہ ہوا
وہی نکھار وہی تازگی و رعنائی

خدا بھی خلق میں چاہے کہ آئینہ دیکھے
اُسے بھی راس نہ آیا سرورِ یکتائی

خورشید رضوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top