محمد تابش صدیقی
منتظم
ایک کاوش استادِ محترم کی توجہ کے بعد احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر
وہی صبح ہے، وہی شام ہے
وہی گردشوں کو دوام ہے
نہ چھپا سکا میں غمِ دروں
کہ مرا ہنر ابھی خام ہے
شبِ انتظار ہے عارضی
یہی صبحِ نو کا پیام ہے
دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو
یہ بڑے ادب کا مقام ہے
رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل
بڑے حوصلے کا یہ کام ہے
وہی بے کنار سا دشت ہے
یہی منظر اپنا مدام ہے
کبھی دُکھ ملے، کبھی سُکھ ملے
یہی میرے رب کا نظام ہے
پسِ پردہ رہتے ہیں نیک خو
جو شریر ہے، سرِ عام ہے
نہیں فکر تابشِؔ کم نظر
کہ امام خیرالانامؐ ہے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
وہی گردشوں کو دوام ہے
نہ چھپا سکا میں غمِ دروں
کہ مرا ہنر ابھی خام ہے
شبِ انتظار ہے عارضی
یہی صبحِ نو کا پیام ہے
دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو
یہ بڑے ادب کا مقام ہے
رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل
بڑے حوصلے کا یہ کام ہے
وہی بے کنار سا دشت ہے
یہی منظر اپنا مدام ہے
کبھی دُکھ ملے، کبھی سُکھ ملے
یہی میرے رب کا نظام ہے
پسِ پردہ رہتے ہیں نیک خو
جو شریر ہے، سرِ عام ہے
نہیں فکر تابشِؔ کم نظر
کہ امام خیرالانامؐ ہے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی