غزل::وہ بھلے سِتمگر ہوں، تلخ کیوں رکُھوں لہجہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا:: رشید حسرت

رشید حسرت

محفلین
غزل


وہ بھلے سِتمگر ہوں، تلخ کیوں رکُھوں لہجہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا
سوچنا بھی ایسا کیا، توبہ ہے مِری توبہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

سِلسِلے عقِیدت کے، کم کبھی نہِیں ہوں گے، چاہے آزماؤ بھی
پیار فاختاؤں پر کِس لِیئے رکُھوں پہرہ، مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

زخم جو بھی بخشیں گے اُن میں پُھول بانٹُوں گا یہ مِرا اِرادہ ہے
اور یاروں کے آگے میں کرُوں کوئی قِصّہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

بات ہے سرِشتوں کی، شوق ہے بہُت لیکن، میں کروں ادا کاری؟
رول بھی بہُت اچھّا، چہرے پر مگر چہرہ، مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

عُمر تو گُناہوں کے بِیچ میں گُزاری ہے، پارسائی کیا مطلب؟
چاہ کر بھی یارو اب کوئی بھی عمل اچّھا مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

اب سِسکتے لوگوں کا درد بانٹا ہو گا وقت کا تقاضہ ہے
دروغ کی مِلاوٹ سے دِل کا جُھوٹا بِہلاوا مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

جاگتے میں کاٹی رات واہِموں کی یلغاریں دل پہ راج رکھتی تھیں
من کو دُوں رشِید حسرتؔ پِھر سُکون کا دھوکہ مُجھ سے تو نہِیں ہو گا

رشِید حسرتؔ​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top