فرحان محمد خان
محفلین
غزل
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل میں کرتا ہوں
خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں
بے جان لکیریں بول اٹھتی ہیں نقطے لَو دے اٹھتے ہیں
اس نقش و نگارِ ہستی میں وہ رنگِ محبت بھرتا ہوں
افسردہ و تیرہ فضاؤں میں گرمیِ پرِ جبریل ہوں میں
سوتے سنسار کے سینہ میں لے کر آیات اترتا ہوں
جب سازِ غزل کو چھوتا ہوں راتیں لَو دینے لگتی ہیں
ظلمات کے سینے میں ہمدم میں جشنِ چراغاں کرتا ہوں
یہ میری نوائے نیم شبی اشکِ انجم میں نہائی ہوئی
اڑ جاتی ہیں نیندیں صدیوں کی کیا جانیے کیا میں کرتا ہوں
دل جن کے فلک سے اٹکے ہیں دھرتی کی وہ عظمت کیا جانیں
میں اس کے قدم پر کنگرۂ افلاک کو بھی خم کرتا ہوں
ہوں آفتابِ داغِ ہجراں یہ شانِ طلوع دیدنی ہے
میں اپنے لہو سے سنورتا ہوں میں سوزِ دروں سے نکھرتا ہوں
آتی ہے یہاں میری باری اک مرتبہ عہد بہ عہد فراقؔ
تقدیرِ زمین و زماں ہوں بطنِ گیتی سے اُبھرتا ہوں
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل میں کرتا ہوں
خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں
بے جان لکیریں بول اٹھتی ہیں نقطے لَو دے اٹھتے ہیں
اس نقش و نگارِ ہستی میں وہ رنگِ محبت بھرتا ہوں
افسردہ و تیرہ فضاؤں میں گرمیِ پرِ جبریل ہوں میں
سوتے سنسار کے سینہ میں لے کر آیات اترتا ہوں
جب سازِ غزل کو چھوتا ہوں راتیں لَو دینے لگتی ہیں
ظلمات کے سینے میں ہمدم میں جشنِ چراغاں کرتا ہوں
یہ میری نوائے نیم شبی اشکِ انجم میں نہائی ہوئی
اڑ جاتی ہیں نیندیں صدیوں کی کیا جانیے کیا میں کرتا ہوں
دل جن کے فلک سے اٹکے ہیں دھرتی کی وہ عظمت کیا جانیں
میں اس کے قدم پر کنگرۂ افلاک کو بھی خم کرتا ہوں
ہوں آفتابِ داغِ ہجراں یہ شانِ طلوع دیدنی ہے
میں اپنے لہو سے سنورتا ہوں میں سوزِ دروں سے نکھرتا ہوں
آتی ہے یہاں میری باری اک مرتبہ عہد بہ عہد فراقؔ
تقدیرِ زمین و زماں ہوں بطنِ گیتی سے اُبھرتا ہوں
فراق گورکھپوری
آخری تدوین: