ثاقب سراج نگری
محفلین
وہ مجھے یاد کرے اب یہ ضروری تو نہیں
باغ دل میں کھلے گل پھر یہ ضروری تو نہیں
رنج جاناں کے شراروں سے جلے جب تن من
اشکوں سے آگ بجھاؤں یہ ضروری تو نہیں
راہ الفت کے مسافر کو اندھیری شب میں
کہکشاں راہ دکھائے یہ ضروری تو نہیں
شام غم بیت ہی جائے گی چراغوں کے بنا
خون سے دیپ جلاؤں یہ ضروری تو نہیں
جیت کا جشن منانا تو سنبھل کر ثاقب
تم ہی جیتو گے ہمیشہ یہ ضروری تو نہیں۔
باغ دل میں کھلے گل پھر یہ ضروری تو نہیں
رنج جاناں کے شراروں سے جلے جب تن من
اشکوں سے آگ بجھاؤں یہ ضروری تو نہیں
راہ الفت کے مسافر کو اندھیری شب میں
کہکشاں راہ دکھائے یہ ضروری تو نہیں
شام غم بیت ہی جائے گی چراغوں کے بنا
خون سے دیپ جلاؤں یہ ضروری تو نہیں
جیت کا جشن منانا تو سنبھل کر ثاقب
تم ہی جیتو گے ہمیشہ یہ ضروری تو نہیں۔