غزل: وہ مجھے یاد کرے اب یہ ضروری تو نہیں

وہ مجھے یاد کرے اب یہ ضروری تو نہیں
باغ دل میں کھلے گل پھر یہ ضروری تو نہیں

رنج جاناں کے شراروں سے جلے جب تن من
اشکوں سے آگ بجھاؤں یہ ضروری تو نہیں

راہ الفت کے مسافر کو اندھیری شب میں
کہکشاں راہ دکھائے یہ ضروری تو نہیں

شام غم بیت ہی جائے گی چراغوں کے بنا
خون سے دیپ جلاؤں یہ ضروری تو نہیں

جیت کا جشن منانا تو سنبھل کر ثاقب
تم ہی جیتو گے ہمیشہ یہ ضروری تو نہیں۔
 
وہ مجھے بھول نہ پائے یہ ضروری تو نہیں
ساز غم وہ بھی بجائے یہ ضروری تو نہیں

شعلئہ ہجر سے جب جب جلے اس کا تن من
اشکوں سے آگ بجھائے یہ ضروری تو نہیں

راہ الفت کے مسافر کو اندھیری شب میں
کہکشاں راہ دکھائے یہ ضروری تو نہیں

شام غم بیت ہی جائے گی چراغوں کے بنا
دیپ وہ خوں سے جلائے یہ ضروری تو نہیں

جیت کا جشن منانا تو سنبھل کر ثاقب
تم کو کوئی نہ ہرائے یہ ضروری تو نہیں۔
 
Top