عباد اللہ
محفلین
گاہے کشٹ اٹھائے گاہے خواری کی
گاہے آپ ہی اپنی ماتم داری کی
گاہے زخمِ طلب پر مرہم رکھا ہے
گاہے ہر خواہش کی دل آزاری کی
پل پل مرنے کے آزار اٹھائے ہیں
جینے کی مقدور تلک فنکاری کی
ہم سے خود پر جبر کی رسم آغاز ہوئی
ہم نے اپنے دشمنِ جاں سے یاری کی
خود ہی سے اک بیر بلا کا تھا ہم کو
سو ہر لمحہ خود ہی سے غداری کی
ایک متاعِ عمر سے ہم. نے کام لیا
نقشِ پائے یار کی نذر گزاری کی
اس کی استغنا میں فرق نہیں آیا
ہم. نے بے جا گریہ و آہ و زاری کی
کٹتی جاتی ہے سب رشتوں کی زنجیر
جانے یہ کیا منزل ہے ناداری کی
ہم اس کے اک سادہ دل سے بندے ہیں
شیخ نے تو رب سے کیا کچھ عیاری کی
میری فکر و نظر کا ایک دبستاں ہے
جس میں غزل بھی طرز ہے عرض گزاری کی
عباد اللہ
گاہے آپ ہی اپنی ماتم داری کی
گاہے زخمِ طلب پر مرہم رکھا ہے
گاہے ہر خواہش کی دل آزاری کی
پل پل مرنے کے آزار اٹھائے ہیں
جینے کی مقدور تلک فنکاری کی
ہم سے خود پر جبر کی رسم آغاز ہوئی
ہم نے اپنے دشمنِ جاں سے یاری کی
خود ہی سے اک بیر بلا کا تھا ہم کو
سو ہر لمحہ خود ہی سے غداری کی
ایک متاعِ عمر سے ہم. نے کام لیا
نقشِ پائے یار کی نذر گزاری کی
اس کی استغنا میں فرق نہیں آیا
ہم. نے بے جا گریہ و آہ و زاری کی
کٹتی جاتی ہے سب رشتوں کی زنجیر
جانے یہ کیا منزل ہے ناداری کی
ہم اس کے اک سادہ دل سے بندے ہیں
شیخ نے تو رب سے کیا کچھ عیاری کی
میری فکر و نظر کا ایک دبستاں ہے
جس میں غزل بھی طرز ہے عرض گزاری کی
عباد اللہ