غزل: پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم

ن

نامعلوم اول

مہمان
پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم​
لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم​
عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​
دے کر ادھار ہجر کو سرمایۂِ حیات​
پاتے رہے بہ رنگِ غم و درد سود ہم​
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​
نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی​
ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم​
کاملؔ چلو لباسِ جنوں زیبِ تن کریں​
کب تک رہیں گے وقفِ غمِ ہست و بود ہم​
 
پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم​
لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم​
عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​
دے کر ادھار ہجر کو سرمایۂِ حیات​
پاتے رہے بہ رنگِ غم و درد سود ہم​
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​
نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی​
ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم​
کاملؔ چلو لباسِ جنوں زیبِ تن کریں​
کب تک رہیں گے وقفِ غمِ ہست و بود ہم​
واہ واہ۔ کیا ہی عمدگی ہے کلام میں۔ بہت خوب۔ بہت شکریہ اسقدر خوبصورت غزل شریکَ محفل کرنے کا۔
فاتح
محمد یعقوب آسی
الف عین
محمد وارث
 

حسان خان

لائبریرین
کامل بھائی، آپ کی غزلوں کا جو فارسی نما اسلوب ہے یہ میرا پسندیدہ ترین اسلوب ہے، اور اس رنگ کی شاعری مجھے بے حد پسند ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کے اردو ادب میں ایسا اسلوب بالکل عنقا ہو گیا ہے، اور ہر جگہ ایک سی ہی ٹھنڈی پھیکی غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس لیے آپ کی ایسی غزلیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

مجھے یہ شعر پسند آیا:
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​
 
واہ صاحب ۔۔ یہ کاشف عمران کامل ہیں کیا؟
غزل تو کامل ہے صاحب! کیا استادانہ انداز پایا ہے!! سب کچھ اچھا ہے؛ لفظیات، پختہ کاری، سب کچھ!!!
آپ کا بھی بہت شکریہ شیخ صاحب، اور شاعر کے لئے بہت سی داد۔

حسان خان نے بہت عمدہ بات کہی ہے:

کامل بھائی، آپ کی غزلوں کا جو فارسی نما اسلوب ہے یہ میرا پسندیدہ ترین اسلوب ہے، اور اس رنگ کی شاعری مجھے بے حد پسند ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کے اردو ادب میں ایسا اسلوب بالکل عنقا ہو گیا ہے، اور ہر جگہ ایک سی ہی ٹھنڈی پھیکی غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس لیے آپ کی ایسی غزلیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ۔​

تائید! اور مزید!!!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے اسلوب اور کچھ فارسی گوئی کے سبب میں اپنا کلام شائع کرنے سے ہچکچاتا رہا۔ورنہ پیش کردہ کلام کا بیشتر حصہ قریبًا دس سے پندرہ برس یا اس سے بھی پرانا ہے۔اسی سبب میں نے کئی سال قبل شاعری مکّمل طور پر ترک کر دی تھی۔اب سے بس چند روز قبل ہی حوصلہ کر کے انٹرنیٹ پر کہیں کہیں کچھ کلام اپ لوڈ کیا۔اب آپ جیسے قدر دانوں کی حوصلہ افزائی شاید مجھے دوبارہ لکھنے کی طرف مائل کیے دے رہی ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
در اصل مسئلہ یوں ہے کہ شہرت اور ہمت صرف عوام کے لئے لکھنے والوں کو ملا کرتی ہے۔ وہ دور کیا تھا جب فن، فن تھا۔ عوام بھی بہر حال فن سے شناسا تھی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
 
ہماری تو ٹوئن بہن ہے یہ اور اس ناتے سے جو چیز ہمیں سمجھ آ گئی وہ اسے بھی سمجھ آ جانی چاہیے۔۔۔ ہم نے تو یونھی پوچھا تھا :laughing:
فاتح

وہ تو آپ کے اس پہلے جملے نے بتا دیا تھا ’’ننھی مقدس‘‘ پر آپ کا ’’سایہ‘‘ ہے۔ آپ چاہیں تو اِس کو جنات سے بھی جوڑ سکتے ہیں۔ وہ تو ہم نے مقدس گڑیا کو کچھ حوصلہ دیا نہیں تو آپ کا یہ ’’یوں ہی‘‘ ۔۔۔ ’’چِڑیاں دی موت تے ۔۔ ۔۔‘‘ اب کیا سارے لفظ لکھنے ہوں گے؟
 
ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے اسلوب اور کچھ فارسی گوئی کے سبب میں اپنا کلام شائع کرنے سے ہچکچاتا رہا۔ورنہ پیش کردہ کلام کا بیشتر حصہ قریبًا دس سے پندرہ برس یا اس سے بھی پرانا ہے۔اسی سبب میں نے کئی سال قبل شاعری مکّمل طور پر ترک کر دی تھی۔اب سے بس چند روز قبل ہی حوصلہ کر کے انٹرنیٹ پر کہیں کہیں کچھ کلام اپ لوڈ کیا۔اب آپ جیسے قدر دانوں کی حوصلہ افزائی شاید مجھے دوبارہ لکھنے کی طرف مائل کیے دے رہی ہے۔

ہم تو فارسی کو اردو شاعری کا حسن سمجھتے ہیں، یار کاشف عمران ! اور اس بات کی گواہی فاتح صاحب بھی دیں گے۔ اگر کچھ ’’جدیدیت زدہ‘‘ لوگ چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، تو بھی کیا ہے!!۔ ہوا کریں!۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ہم تو فارسی کو اردو شاعری کا حسن سمجھتے ہیں، یار کاشف عمران ! اور اس بات کی گواہی فاتح صاحب بھی دیں گے۔ اگر کچھ ’’جدیدیت زدہ‘‘ لوگ چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، تو بھی کیا ہے!!۔ ہوا کریں!۔

"جدیدیت زدہ" یہ نہ بھولیں کہ فارسی سے دوری دراصل ایک عظیم ماضی سے دوری ہے۔ آج سے سو سال بعد کوئی میر و سودا و غالب و اقبال کو سمجھے گا بھی یا نہیں؟ فارسی میں خواجو اور حافظ سیکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی آج کے شاعر معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اہلِ فارس کو اپنے ماضی پر فخر کرنا آ تا ہےاور انہوں نے اپنی زبان کا (اب تک بہرحال) چہرہ مسخ ہونے سے بچایا ہوا ہے۔جبکہ ہماری جدیدیت زدگی زبان کا حلیہ بگاڑنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔میری نظر میں تو یہ جدیدیت نہیں سراسر سستی اور بغیر محنت کیے سب کچھ پا لینے کی خواہش ہے۔فرحت عبّاسیے ایک رات میں ایک دیوان نکالنے کو شاعری کی معراج سمجھتے ہیں۔ اگر بسیار گوئی ہی کمال ہوتا تو ذوق اور داغ آج دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہوتے۔مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ایک اچھوتا خیال اچھوتے انداز میں پیش کرنے کے لیے جگر خون کرنا پڑتا ہے۔جب کوتاہ نظری کا یہ عالم ہو کہ محض موزونیت ہی کو شعر کہا اور سمجھا جائے تو پھر کہاں کی زباں اور کہاں کی شاعری؟ بلکہ اب تو موزونیت کو بھی لازم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تو شاید پھر بھی قابلِ قبول ہوتا مگر خیال کے بغیر شاعری؟ گویا روح کے بغیر جسم! ایسے مردار کو تو گاڑ دینا ہی بہتر ۔ کم سے کم تعّفن تو نہ پھیلے۔

دم توڑتی زبان کا نوحہ کچھ لمبا ہی ہو گیا۔ ذاتی طور پر میں جدیدیت پسندی (نہ کہ جدیدت کے نام پر اُتھلی شاعری) کے ہر گز خلاف نہیں کہ تبدیلی تو قانونِ فطرت ہے۔میں تو خود اس ضمن میں تجربات بھی کر چکا ہوں۔ملاحظہ کریں یہ شعر:
منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل
دیکھ لے گر تری زُلفوں کے سنہرے بادل

میری ناقص عقل میں بالوں اور بادلوں کا رنگ کالے سے سنہرا ہو کر بھی خوبصورت رہ سکتا ہے مگر زبان کا رنگ تو سوچ سمجھ کر ہی بدلنا چاہیے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​
نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی​
ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم​
واہ واہ! کیا اچھی غزل ہے۔ یہ دو اشعار تو کمال کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بہت داد قبول کیجیے کاشف عمران صاحب!​
 
Top