محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن
پانی ہمیشہ بہتا ہے ڈھلوان کی طرف
کوہِ بلند و بالا سے میدان کی طرف
اِک موڑ پر کھڑا ہوں مگر مخمصے میں ہوں
جاؤں میں شہر کو ، کہ بیابان کی طرف
رکھیے ذرا تو مجلسی آداب کا خیال
یوں ٹکٹکی نہ باندھیےمہمان کی طرف
ممکن ہے لوٹ آئے گیا وقت ایک دن
دیتا ہے دھیان کون اِس اِمکان کی طرف
لے آئے لوگ لکھ کے مضامیں نئے نئے
اب ہم بھی دھیان دیں کسی عنوان کی طرف
رہتا ہے آدمی ہی سدا مرکزِ نگاہ
اے کاش دیکھتا کوئی انسان کی طرف
فکرِ سُخن میں گُم ہوں لیے ہاتھ میں قلم
نظریں مگر ہیں چائے کے فنجان کی طرف
از : محمد حفیظ الرحمٰن
پانی ہمیشہ بہتا ہے ڈھلوان کی طرف
کوہِ بلند و بالا سے میدان کی طرف
اِک موڑ پر کھڑا ہوں مگر مخمصے میں ہوں
جاؤں میں شہر کو ، کہ بیابان کی طرف
رکھیے ذرا تو مجلسی آداب کا خیال
یوں ٹکٹکی نہ باندھیےمہمان کی طرف
ممکن ہے لوٹ آئے گیا وقت ایک دن
دیتا ہے دھیان کون اِس اِمکان کی طرف
لے آئے لوگ لکھ کے مضامیں نئے نئے
اب ہم بھی دھیان دیں کسی عنوان کی طرف
رہتا ہے آدمی ہی سدا مرکزِ نگاہ
اے کاش دیکھتا کوئی انسان کی طرف
فکرِ سُخن میں گُم ہوں لیے ہاتھ میں قلم
نظریں مگر ہیں چائے کے فنجان کی طرف
مدیر کی آخری تدوین: