غزل : پانی ہمیشہ بہتا ہے ڈھلوان کی طرف : از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

پانی ہمیشہ بہتا ہے ڈھلوان کی طرف
کوہِ بلند و بالا سے میدان کی طرف

اِک موڑ پر کھڑا ہوں مگر مخمصے میں ہوں
جاؤں میں شہر کو ، کہ بیابان کی طرف

رکھیے ذرا تو مجلسی آداب کا خیال
یوں ٹکٹکی نہ باندھیےمہمان کی طرف

ممکن ہے لوٹ آئے گیا وقت ایک دن
دیتا ہے دھیان کون اِس اِمکان کی طرف

لے آئے لوگ لکھ کے مضامیں نئے نئے
اب ہم بھی دھیان دیں کسی عنوان کی طرف

رہتا ہے آدمی ہی سدا مرکزِ نگاہ
اے کاش دیکھتا کوئی انسان کی طرف

فکرِ سُخن میں گُم ہوں لیے ہاتھ میں قلم
نظریں مگر ہیں چائے کے فنجان کی طرف
 
مدیر کی آخری تدوین:
استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب۔ غزل کی پسندیدگی پر بےحد شکریہ قبول کیجئے۔ فنجان کے بارے میں مجھے قطعی علم تو نہیں میں نے اندازے سے استعمال کیا ہے۔ میں فارسی نہیں جانتا بس فارسی کے بعض الفاظ کی شد بد ہے۔ فارسی داں حضرات سے رہنمائی کی درخواست ہے ۔ محمد وارث صاحب اور محسن حجاز نقوی صاحب خصوصی توجہ فرمایئں۔
 
واہ، اچھی غزل ہے۔ فنجان مؤنث ہوتا ہے؟
اُستادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب۔ میں نے فیروزالغات میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ فنجان مذکر استعمال ہوتا ہے۔ غلطی کی نشان دہی کے لئے شکریہ قبول فرمایئے۔ منتظمینِ اردو محفل سے درخواست ہے کہ میری اس غزل کے آخری شعر کے دوسرے مصرع میں اس طرح ترمیم کر دیں۔
نظریں مگر ہیں چائے کے فنجان کی طرف​
 
Top