محمد تابش صدیقی
منتظم
پرستش اس کی فطرت ہے، یہ دیوانہ نہ بدلے گا
چراغوں کے بدل جانے سے پروانہ نہ بدلے گا
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا
جو ممکن ہو تو سچ مچ کے اجالے ڈھونڈ کر لاؤ
چراغِ مضمحل کی ضو سے غم خانہ، نہ بدلے گا
کمی ہے اس میں کرداروں کی، مقصد کی، تاثر کی
فقط سرخی بدل جانے سے افسانہ نہ بدلے گا
سروں پر تاج رکھ لینے کو سلطانی نہیں کہتے
نہ بدلا ہے یہ اندازِ گدایانہ، نہ بدلے گا
کسی گوشے سے کوئی غزنوی اٹھے تو ہم جانیں
بتانِ خود تراشیده سے بت خانہ نہ بدلے گا
دلوں کی تیرگی کا کچھ کرو اے اہلِ کاشانہ
فقط جشنِ چراغاں سے یہ کاشانہ نہ بدلے گا
٭٭٭
اقبالؔ عظیم
چراغوں کے بدل جانے سے پروانہ نہ بدلے گا
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا
جو ممکن ہو تو سچ مچ کے اجالے ڈھونڈ کر لاؤ
چراغِ مضمحل کی ضو سے غم خانہ، نہ بدلے گا
کمی ہے اس میں کرداروں کی، مقصد کی، تاثر کی
فقط سرخی بدل جانے سے افسانہ نہ بدلے گا
سروں پر تاج رکھ لینے کو سلطانی نہیں کہتے
نہ بدلا ہے یہ اندازِ گدایانہ، نہ بدلے گا
کسی گوشے سے کوئی غزنوی اٹھے تو ہم جانیں
بتانِ خود تراشیده سے بت خانہ نہ بدلے گا
دلوں کی تیرگی کا کچھ کرو اے اہلِ کاشانہ
فقط جشنِ چراغاں سے یہ کاشانہ نہ بدلے گا
٭٭٭
اقبالؔ عظیم