غزل: پرندے کو ٹھکانہ چاہیے ہے!

غزل
(کامی شاہ صاحب کی نذر)

پرندے کو ٹھکانہ چاہیے ہے
کہیں دل کو لگانا چاہیے ہے

تو اپنے آپ سے ڈرتا ہے بےجا
تجھے تو کھل کے آنا چاہیے ہے

نظامِ خورد رب نے کر دیا ہے
ہمیں پینا پلانا چاہیے ہے

حسینوں پر لٹانے کے لیےتو
محبت کا خزانہ چاہیے ہے

یہ میں نے جتنا ان دیکھا ہے دیکھا
یہ دنیا کو دکھانا چاہیے ہے

میں کامیؔ شاہ کا ہمدم ہوں صاحب
مجھے اوپر بٹھانا چاہیے ہے

حجازؔ آپ اتنے اچھے ناخدا ہیں
سو یہ بیڑا اٹھانا چاہیے ہے

مہدی نقوی حجازؔ
 
خوب۔۔۔ ۔
یہ کامی صاحب کون ہیں حضور؟
ذراتعارف بھی کرا دیتے
سید کامی شاہ صاحب، اکیسویں صدی کے بہترین نوجوان شاعر ہیں۔ انکی کتاب "تجھ بن ذات ادھوری ہے" کے دو ایڈیشنز آ چکے ہیں، اور اب ان کی غزلیات کا مجموعہ "قدیم" راہ میں ہے۔
 
Top