غزل : پندار کے اس صنم کدے میں : از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن


پندار کے اس صنم کدے میں
دل جھوم رہا ہے کیوں نشے میں

پھر چلنے لگی ہوائے صحرا
دل ڈوب رہا ہے وسوسے میں

اے ابرِ بہار اب نہ ترسا
برداشت کہاں ہے دل جلے میں

محفوظ ہے تیری ہر نشانی
برگد کے اُسی کھوکھلےتنے میں

ہے سحر تمہاری مسکراہٹ
جادو ہے تمہارے قہقہے میں

ہمراہ مرے رہا ہے تُو بھی
خوابوں کے طویل سلسلے میں

کس کس کے وہ دل کا چین ہونگے
جو مر گئے کل کے زلزلے میں

خود میرے لیے وہ اجنبی تھا
چہرہ جو مرا تھا آئینے میں

منزل کو ہے انتظارجن کا
وہ لوگ ابھی ہیں راستے میں

بکھرے ہیں دھنک کے رنگ سارے
صابن کے ذرا سے بُلبلے میں


 
Top