ارشد صاحب ، عمومی طور پر غزل پسند آئی . داد حاضر ہے . مطلع اور دوسرا شعر خوب ہیں . تیسرے شعر میں میری ناچیز رائے میں ’ہے‘ کی جگہ ’تھا‘ کا محل ہے کیونکہ ردیف ’رہی‘ زمانۂ ماضی میں ہے . ویسے شعر عمدہ ہے . چوتھے اور پانچویں شعر کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوا . چھٹے شعر میں ’بلائے ہے‘ کی ترکیب پر گفتگو ہو چکی ہے . میرے خیال میں کبھی کبھار ایسی ترکیب كے استعمال میں ہرج نہیں ، لیکن ردیف ’رہی‘ کی نسبت سے یہاں بھی مجھے ’ہے‘ کی جگہ ’تھی‘ کی ضرورت محسوس ہوئی . یہاں آپ ’بلائے ہے‘ کی جگہ ’بلاتی تھی‘ کہتے تو بہتر تھا . مقطع اچھا ہے ، لیکن ’یوں ہی‘ اضافی لگا .
یہ میرے ناچیز تاثرات ہیں . بقول آپ كے ’اَیڈِیٹَر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں .‘
عرفان صاحب - غزل کی پسندیدگی کا بہت شکریہ - آپ کی باتوں پہ کچھ گزارشات کرتا ہوں
میں ذاتی طور پر اس کو مناسب نہیں سمجھتا کہ شاعر سے اسکے شعر کا مطلب پوچھا جائے - سمجھ آگیا تو اچھا ورنہ اللہ اللہ خیر صلیٰ
مگر مجھ سے اس سائٹ پر احباب کو پہلے ہی کافی شکایتیں ہو چکی ہیں اس لیے میں آپ کے سوال کے جواب میں ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہو نا ضروری نہیں
نہیں لکھ سکتا - اس لیے اپنے مزاج کے برخلاف اپنے ہی اشعار کی مختصر تشریح کر دیتا ہوں - آپ کو یقینا اس سے اختلاف ہو سکتا ہے -
پھر کوئی چاک گریباں نظر آیا ہے مجھے
پھر مرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام رہی
== آپ نے کہا کہ یہاں ہے کا نہیں تھا کا محل ہے مگر میری رائے میں ایسا نہیں ہے - رہی - - یعنی نظر آیا تو ابھی ہے مگر میرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام رہی
ہے یا رہی تھی یہ دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے -
پھر کوئی وحشتِ انجام ہوئی سینہ سپر
پھر مرے دل کی خوشی لرزہ براندام رہی
== سر یہ تو بہت واضح بات ہے - کسی چیز کے انجام کی وحشت کا خیال پھر سامنے آکر کھڑاہے جس کی وجہ سے دل کی خوشی لرزاں ہے - یہاں سینہ سپر سے مطلب یہ ہوا کہ آکر ڈٹ گئی ہے - جانے کا نام نہیں لیتی اور دوسرے مصرعے میں سینے کے ساتھ دل کا استعمال رعایتِ لفظی ہے - جو کہ شعر کا حسن ہوتا ہے -
پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی قسمت تھی، مرے نام رہی
== یہ ایک تلمیح ہے قصہ حاتم طائ میں منیر شامی کسی دوشیزہ کو حاصل کرنے کے لیئے اسکے سات سوالات کے جوابات پانے نکلتا ہے مگر پا نہیں سکتا آخر کار حاتم طائی اس کی مدد کرتا ہے - یعنی وہ محنت کرنا کسی اور کی قسمت میں تھا پر رہی وہ حاتم کے کھا تے میں - اب تو شعر کا مطلب سمجھ آ جانا چاہییے - سر اگر یہ قصہ نہیں سنا جو اردو ادب میں کلاسیک میں شامل ہے تو یہ شعر سمجھ نہیں آ سکتا مگر ہر تلمیح کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے -
پھرکوئی دشتِ فنا مجھ کو پکارے ارشد !
پھر مرے جینے کی حسرت یونہی ناکام رہی
سر لفظ یونہی اضافی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ بیکار میں ناکام رہی - اور پھر کوئ پہلے مصرعے میں استعمال ہوا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے -
یعنی جینے کی حسرت ایک بار پھر ان ہی وجوہات کی بنا پر ناکام رہی جن کی وجہ سے پہلے بھی ناکام ہوچکی ہے -