غزل : چمن میں نعرہء یاہو ہے کیسا از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن
چمن میں نعرہء یاہو ہے کیسا
اور اس پر یہ خمِ ابرو ہے کیسا
غزالِ دشت کی وحشت ہے کیسی
یہ صحرا میں رمِ آہو ہے کیسا
جھکی ہیں ساری محفل کی نگاہیں
شریکِ بزم یہ مہ رو ہے کیسا
چمن سارا منور ہو رہا ہے
تمھارے باغ میں جگنو ہے کیسا
نہ خود سمجھے نہ اوروں ہی کی مانے
مِرا دل آج بے قابو ہے کیسا
سنائی داستانِ دِل تو بولے
تمھاری آنکھ میں آنسو ہے کیسا
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔ اپنا مجموعہ ترتیب دے کر بھجواؤ بھئی۔ کم از کم ای بک کا تو میں بھی مجاز ہوں۔
ایک جگہ تائپو ہے۔ درست ’مرا‘ ہوگا۔
میرا دل آج بے قابو ہے کیسا​
 
استادِ محترم الف عین صاحب۔ بہت بہت شکریہ ۔ سر آپ کی حوصلہ افزائی سے دل کتنا خوش ہوا میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ابھی تو میرا شعری سرمایہ اتنا نہیں کہ مجموعہ مرتب کر سکوں۔ جب اس قابل ہو گیا تو انشاءاللہ بلاتاخیر آب کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ شعر میں لفظ " مرا " ہی درست ہے میں نے اپنی کاپی میں بھی یہی لکھا ہے مگر ٹائپ کرتے وقت غلطی ہو گئی تھی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ نشاندہی کے لئے بےحد شکریہ۔
 
خوب غزل ہے حفیظ ۔ داد قبول ہو۔

بہت خوب۔ اپنا مجموعہ ترتیب دے کر بھجواؤ بھئی۔ کم از کم ای بک کا تو میں بھی مجاز ہوں۔
ایک جگہ تائپو ہے۔ درست ’مرا‘ ہوگا۔
میرا دل آج بے قابو ہے کیسا​
تدوین کردی ہے استادِ محترم۔
 
Top