غزل : چہروں پہ بے کسی کے کتبے ٹھہر گئے ہیں - بیدلؔ حیدری

غزل
چہروں پہ بے کسی کے کتبے ٹھہر گئے ہیں
طوفان چل رہا ہے تنکے ٹھہر گئے ہیں

یہ کس کی داستاں نے توڑا ہے دم اچانگ
یہ کس کے لب پہ آ کر فقرے ٹھہر گئے ہیں

تیری صدا کی لہریں قوسِ قزح بنی ہیں
یا ساز سے نکل کر نغمے ٹھہر گئے ہیں

لہرا رہی ہیں دل پر کتنی لطیف یادیں
بادِ صبا کے جیسے جھونکے ٹھہر گئے ہیں

چہرے پہ اُس کے نظریں مرکوز ہو گئی ہیں
منزل کے پاس آ کر رستے ٹھہر گئے ہیں

کیا کہہ دیا صبا نے یہ کان میں سحر کے
ہر پیڑ سے اُتر کر سائے ٹھہر گئے ہیں

یہ دیکھنا گلی میں کون آ رہا ہے بیدل
قدموں کی چاپ سن کر لمحے ٹھہر گئے ہیں
بیدلؔ حیدری
 
Top