محمد تابش صدیقی
منتظم
کبھی آیت، کبھی تفسیر میں الجھے ہوئے ہیں
ہم ابھی اپنی اساطیر میں الجھے ہوئے ہیں
کوئی آئینِ قدامت ہمیں گھیرے ہوئے ہے
ہم پرانی کسی تحریر میں الجھے ہوئے ہیں
تو کبھی مسجد و محراب سے باہر بھی نکل
ہم ترے خواب کی تعبیر میں الجھے ہوئے ہیں
زلفِ ایام سلجھتی ہی نہیں ہے ہم سے
یوں تری زلفِ گرہ گیر میں الجھے ہوئے ہیں
ہم زیاں کارِ ازل، دشمنِ فہم و تحقیق
ہم ابھی شکوۂ تقدیر میں الجھے ہوئے ہیں
ابھی باقی ہے یہاں کوئے ملامت کا طواف
ہم ابھی تہمتِ تکفیر میں الجھے ہوئے ہیں
کیسے ناکردہ گناہوں کی سزا ہے ہم کو
جانے کس جرم کی تعزیر میں الجھے ہوئے ہیں
کوئی صورت نہیں امکانِ رہائی کی ندیمؔ
جانے کس حلقۂ زنجیر میں الجھے ہوئے ہیں
٭٭٭
رشید ندیم
ہم ابھی اپنی اساطیر میں الجھے ہوئے ہیں
کوئی آئینِ قدامت ہمیں گھیرے ہوئے ہے
ہم پرانی کسی تحریر میں الجھے ہوئے ہیں
تو کبھی مسجد و محراب سے باہر بھی نکل
ہم ترے خواب کی تعبیر میں الجھے ہوئے ہیں
زلفِ ایام سلجھتی ہی نہیں ہے ہم سے
یوں تری زلفِ گرہ گیر میں الجھے ہوئے ہیں
ہم زیاں کارِ ازل، دشمنِ فہم و تحقیق
ہم ابھی شکوۂ تقدیر میں الجھے ہوئے ہیں
ابھی باقی ہے یہاں کوئے ملامت کا طواف
ہم ابھی تہمتِ تکفیر میں الجھے ہوئے ہیں
کیسے ناکردہ گناہوں کی سزا ہے ہم کو
جانے کس جرم کی تعزیر میں الجھے ہوئے ہیں
کوئی صورت نہیں امکانِ رہائی کی ندیمؔ
جانے کس حلقۂ زنجیر میں الجھے ہوئے ہیں
٭٭٭
رشید ندیم