غزل: کبھی آیت، کبھی تفسیر میں الجھے ہوئے ہیں ٭ رشید ندیم

کبھی آیت، کبھی تفسیر میں الجھے ہوئے ہیں
ہم ابھی اپنی اساطیر میں الجھے ہوئے ہیں

کوئی آئینِ قدامت ہمیں گھیرے ہوئے ہے
ہم پرانی کسی تحریر میں الجھے ہوئے ہیں

تو کبھی مسجد و محراب سے باہر بھی نکل
ہم ترے خواب کی تعبیر میں الجھے ہوئے ہیں

زلفِ ایام سلجھتی ہی نہیں ہے ہم سے
یوں تری زلفِ گرہ گیر میں الجھے ہوئے ہیں

ہم زیاں کارِ ازل، دشمنِ فہم و تحقیق
ہم ابھی شکوۂ تقدیر میں الجھے ہوئے ہیں

ابھی باقی ہے یہاں کوئے ملامت کا طواف
ہم ابھی تہمتِ تکفیر میں الجھے ہوئے ہیں

کیسے ناکردہ گناہوں کی سزا ہے ہم کو
جانے کس جرم کی تعزیر میں الجھے ہوئے ہیں

کوئی صورت نہیں امکانِ رہائی کی ندیمؔ
جانے کس حلقۂ زنجیر میں الجھے ہوئے ہیں

٭٭٭
رشید ندیم
 

سید عمران

محفلین
میں شخصیت سے واقف نہیں۔ :)
مگر ہم تو آپ کی شخصیت سے واقف ہیں!!!
خیر اصل مدعا یہ ہے کہ جہاں تک ہم سمجھے شاعر قرآن فہمی سے الجھنے کی بات کررہا ہے اور قرآن کو آئینِ قدامت کہہ رہا ہے۔۔۔
اگر ہم غلط سمجھے تو اصلاح کردیں!!!
 
خیر اصل مدعا یہ ہے کہ جہاں تک ہم سمجھے شاعر قرآن فہمی سے الجھنے کی بات کررہا ہے اور قرآن کو آئینِ قدامت کہہ رہا ہے۔۔۔
اگر ہم غلط سمجھے تو اصلاح کردیں!!!
ہو سکتا ہے کہ واقعی شاعر کا وہی مفہوم ہے، جہاں تک آپ پہنچے۔ میں ذاتی طور پر یا یوں کہہ لیں کہ اپنے نظریہ کے مطابق اس شعر کا مخاطب ان لوگوں کو سمجھوں گا کہ جو قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے بجائے اس میں لیت و لعل کرتے ہیں اور فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعہ اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ ہرگز ضروری نہیں کہ شاعر نے بھی یہ شعر اسی مفہوم سے کہا ہو۔ :)
البتہ دوسرا شعر میری پسند کے دائرہ سے باہر ہے۔ بس جب کوئی کلام پیش کرتا ہوں تو پوری غزل شعر کرنا ہی مناسب سمجھتاہوں۔ :)

ہم تو فیض، جالب اور ساحر جیسے سرخ انقلابیوں کے اشعار بھی اسلامی انقلاب کے لیے پڑھا کرتے ہیں۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
کوئی آئینِ قدامت ہمیں گھیرے ہوئے ہے
ہم پرانی کسی تحریر میں الجھے ہوئے ہیں
اس شعر کی تشریح شاعر نے اس طرح کی ہے
ہم زیاں کارِ ازل، دشمنِ فہم و تحقیق
ہم ابھی شکوۂ تقدیر میں الجھے ہوئے ہیں
محمد تابش صدیقی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اساطیرمؤنث ہے ، عاطف بھائی ۔
میں تو اسے اردو میں نہ جانے کیوں اسے مذکر سمجھتا تھا اب تک ۔ :)
عربی میں تو خیر مونث ہی ہے ۔ ویسے کیا اس کی کوئی مثال ملے گی ؟ ۔ اس کا واحد صیغہ اسطورہ ہے شاید ۔بمعنی myth۔
اچھا ہوا "جلد" ہی پتہ چل گیا ورنہ پطرس بخاری اور ظفر علی خان صاحبان کا واقعہ تازہ ہو جاتا ۔۔۔ :)
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے. ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان کو تقریر کے لیے بلایا,تقریر کی ریکاڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے.بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا
" پطرس ! یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ "
پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور بولے " مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی ؟
اس پر مولانا گڑبڑا گئے اور بولے " بھئی ,یہی کو پچھتر سال ہو گی.
پطرس کہنے لگے " مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گزار دیے تو دو چار سال اور گزار لیجیے "
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں تو اسے اردو میں نہ جانے کیوں اسے مذکر سمجھتا تھا اب تک ۔ :)
عربی میں تو خیر مونث ہی ہے ۔ ویسے کیا اس کی کوئی مثال ملے گی ؟ ۔ اس کا واحد صیغہ اسطورہ ہے شاید ۔بمعنی myth۔
اچھا ہوا "جلد" ہی پتہ چل گیا ورنہ پطرس بخاری اور ظفر علی خان صاحبان کا واقعہ تازہ ہو جاتا ۔۔۔ :)
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے. ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان کو تقریر کے لیے بلایا,تقریر کی ریکاڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے.بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا
" پطرس ! یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ "
پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور بولے " مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی ؟
اس پر مولانا گڑبڑا گئے اور بولے " بھئی ,یہی کو پچھتر سال ہو گی.
پطرس کہنے لگے " مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گزار دیے تو دو چار سال اور گزار لیجیے "
مثال تو کوئی یاد نہیں آرہی عاطف بھائی ۔ یہ مؤنث سماعی ہی ہے یعنی اسی طرح سنا ہے کہ ۔۔۔ اساطیر تھیں ۔ "اساطیر تھے" کبھی سماعت سے نہیں گزرا۔ نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ میں تو اساطیر کا لفظ ہی موجود نہیں ہے ۔ البتہ فیروزاللغات میں ہے اور مولوی صاحب نے اسے مؤنث ہی لکھا ہے ۔ اس وقت کام پر ہوں اور آنلائن چیک کیا ہے۔ دیگر لغات گھر پر ہیں ۔ جا کر دیکھوں گا اور آپ کو نتیجے سے آگاہ کردوں گا ان شاء اللہ ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں تو اسے اردو میں نہ جانے کیوں اسے مذکر سمجھتا تھا اب تک ۔ :)
عربی میں تو خیر مونث ہی ہے ۔ ویسے کیا اس کی کوئی مثال ملے گی ؟ ۔ اس کا واحد صیغہ اسطورہ ہے شاید ۔بمعنی myth۔
عاطف بھائی ، پندرہ منٹ کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اساطیر کا لفظ فرہنگِ آصفیہ ، نوراللغات ، امیر مینائی کی امیراللغات اور شان الحق حقی کی فرہنگِ تلفظ میں موجود نہیں ہے۔ فیروزاللغات اور علمی لغت دونوں نے اسے مؤنث لکھا ہے ۔ فرہنگِ عامرہ اور مقتدرہ کی لغت کبیر میں یہ لفظ تو موجود ہے لیکن اس کی تجنیس کا کوئی ذکر نہیں ۔

انٹر نیٹ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ گوپی چند نارنگ ، وزیر آغا ، ، قرۃ العین حیدر اور ن-م راشد جیسے معتبر مصنفین نے اساطیر کو مؤنث ہی استعمال کیا ہے ۔
 
Top