وجاہت حسین
محفلین
غزل
کبھی آب و خاک دیکھی، کبھی کہکشاں سے گزرے
تری دید کی طلب میں، ترے لا مکاں سے گزرے
ترے شوق کے سفر میں کہاں اک جہاں سے گزرے
یہ وہاں وہاں سے گزرے، کہ نہ جو گماں سے گزرے
جو حکیم تھے یگانہ، جو فصیح تھے بلا کے
تری بارگہ میں آ کر خرد و زباں سے گزرے
اے لطافتوں کے خالق، مجھے وہ نظر عطا کر
کہ جو خاک پر پڑے تو ترے خاک داں سے گزرے
بے حجاب آ رہے ہیں، تو اے دل ذرا سنبھل کر
ہے رضا یہ شاید ان کی، تُو بھی امتحاں سے گزرے
نہ ہی دیر یا حرم ہے، مری بندگی کا مرجع
میں کروں وہاں پہ سجدے، تُو جہاں جہاں سے گزرے
کوئی مول فصلِ گل کا نہیں جانتے وہ گلشن
جو رہے سدا مہکتے، نہ کبھی خزاں سے گزرے
نہیں نقشِ پا کی حاجت، کہ میں عاشقِ مہک ہوں
مجھے مشک ہی بتا دے، کہ ہرن کہاں سے گزرے
اِسے کفر سے بری کر، تُو پڑھا کے کلمہِ عشق
کبھی حافظِؔ برہمن ترے آستاں سے گزرے
کبھی آب و خاک دیکھی، کبھی کہکشاں سے گزرے
تری دید کی طلب میں، ترے لا مکاں سے گزرے
ترے شوق کے سفر میں کہاں اک جہاں سے گزرے
یہ وہاں وہاں سے گزرے، کہ نہ جو گماں سے گزرے
جو حکیم تھے یگانہ، جو فصیح تھے بلا کے
تری بارگہ میں آ کر خرد و زباں سے گزرے
اے لطافتوں کے خالق، مجھے وہ نظر عطا کر
کہ جو خاک پر پڑے تو ترے خاک داں سے گزرے
بے حجاب آ رہے ہیں، تو اے دل ذرا سنبھل کر
ہے رضا یہ شاید ان کی، تُو بھی امتحاں سے گزرے
نہ ہی دیر یا حرم ہے، مری بندگی کا مرجع
میں کروں وہاں پہ سجدے، تُو جہاں جہاں سے گزرے
کوئی مول فصلِ گل کا نہیں جانتے وہ گلشن
جو رہے سدا مہکتے، نہ کبھی خزاں سے گزرے
نہیں نقشِ پا کی حاجت، کہ میں عاشقِ مہک ہوں
مجھے مشک ہی بتا دے، کہ ہرن کہاں سے گزرے
اِسے کفر سے بری کر، تُو پڑھا کے کلمہِ عشق
کبھی حافظِؔ برہمن ترے آستاں سے گزرے