غزل: کبھی نگاہ وہ مجھ پر نہ حسبِ حال رہی

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ابھی حال ہی میں ارشد رشید صاحب نے اپنی غزل ’پِھر کسی چاند کی آہٹ سی لبِ بام رہی‘ عنایت فرمائی تھی . اِس غزل کی ردیف ’رہی‘ میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ میرے ذہن میں اٹک گئی اور ایک غزل كے چند اشعار کی ماخذ بنی . وہ اشعار نوک پلک سنوار کر یہاں پیش کر رہا ہوں . قافیہ اور بحر میں نے مختلف استعمال کیے ہیں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

کبھی نگاہ وہ مجھ پر نہ حسبِ حال رہی
ہمیشہ اس کی روش باعثِ ملال رہی

کچھ ایسے ڈھنگ سے پوچھی گئی تھی خواہشِ دِل
رہی امید ، نہ پِھر جُرأتِ سوال رہی

حسابِ عمرِ گذشتہ کیا تھا سارا دن
سو کل کی رات طبیعت بہت نڈھال رہی

ذرا سی بات سے رشتوں میں پڑ گئی ہے درار
وہ بات شیشۂ دِل میں جو بن كے بال رہی

یہ صاف گوئ کی عادت بھی خوب عادت ہے
جہاں گئے سو وہیں جان کا وبال رہی

نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی

ہمی نے خود کو تماشہ بنا كے رکّھا ہے
وگرنہ اتنی کسی کی کہاں مجال رہی

دعائیں لے لو بزرگوں کو مرتبہ دے کر
کہ یہ کمائی ہر اک دور میں حلال رہی

دیے تو راہ میں جلتے رہے ہیں ، اے عابدؔ
وہ روشنی مگر آنكھوں میں خال خال رہی

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
کبھی نگاہ وہ مجھ پر نہ حسبِ حال رہی
ہمیشہ اس کی روش باعثِ ملال رہی،واہ!

ہمیشہ اک یہ خلش۔۔۔۔

کچھ ایسے ڈھنگ سے پوچھی گئی تھی خواہشِ دِل
رہی امید ، نہ پِھر جُرأتِ سوال رہی

واہ! بیشک بعض اوقات اپنوں کا بھی انداز اِس نہج پر آجاتا ہے کہ بات کیا کی گویا لٹھ مار دیاکہ جی خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑے

حسابِ عمرِ گذشتہ کیا تھا سارا دن
سو کل کی رات طبیعت بہت نڈھال رہی،واہ!

فیض یاد آگئے

ذرا سی بات سے رشتوں میں پڑ گئی ہے درار
وہ بات شیشۂ دِل میں جو بن كے بال رہی

۔۔۔یہ لفظ دراڑ ہے یا درار میرا خیال ہے ٹائپنگ کی غلطی ہے

یہ صاف گوئ کی عادت بھی خوب عادت ہے
جہاں گئے سو وہیں جان کا وبال رہی،واہ!

نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی

نکل رہی ہے مری جان میری موت کے بعد
جو میرے بارے میں لوگوں کی قیل و قال رہی

ہمی نے خود کو تماشہ بنا كے رکّھا ہے
وگرنہ اتنی کسی کی کہاں مجال رہی،واہ !



دعائیں لے لو بزرگوں کو مرتبہ دے کر
کہ یہ کمائی ہر اک دور میں حلال رہی، ماشاء اللہ !

دیے تو راہ میں جلتے رہے ہیں ، اے عابدؔ
وہ روشنی مگر آنكھوں میں خال خال رہی
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
دیے تو راہ میں جلتے رہے ہیں ، اے عابدؔ
وہ روشنی مگر آنكھوں میں خال خال رہی
بہت خوب۔
نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی
آپ کے ہاں معاملہ متضاد ہے۔ عموماً لوگوں کو جانے والوں کی شان میں قصیدے پڑھتے دیکھا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی
آپ کے ہاں معاملہ متضاد ہے۔ عموماً لوگوں کو جانے والوں کی شان میں قصیدے پڑھتے دیکھا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ شعر دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہو سکتا ہے۔ ایک تو وہ جو آپ کہہ رہی ہیں (وہ معاملہ خلافِ معمول سا بھی لگ رہا ہے) اور دوسرا اگر آخرت پر اسے منطبق کیا جائے تو کچھ یوں ہو گا کہ شاعر جسے خود میں ایک مثالی چیز سمجھتا رہا وہی اگلے جہان میں عیب ثابت ہو رہی ہے۔
 
کبھی نگاہ وہ مجھ پر نہ حسبِ حال رہی
ہمیشہ اس کی روش باعثِ ملال رہی،واہ!

ہمیشہ اک یہ خلش۔۔۔۔

کچھ ایسے ڈھنگ سے پوچھی گئی تھی خواہشِ دِل
رہی امید ، نہ پِھر جُرأتِ سوال رہی

واہ! بیشک بعض اوقات اپنوں کا بھی انداز اِس نہج پر آجاتا ہے کہ بات کیا کی گویا لٹھ مار دیاکہ جی خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑے

حسابِ عمرِ گذشتہ کیا تھا سارا دن
سو کل کی رات طبیعت بہت نڈھال رہی،واہ!

فیض یاد آگئے

ذرا سی بات سے رشتوں میں پڑ گئی ہے درار
وہ بات شیشۂ دِل میں جو بن كے بال رہی

۔۔۔یہ لفظ دراڑ ہے یا درار میرا خیال ہے ٹائپنگ کی غلطی ہے

یہ صاف گوئ کی عادت بھی خوب عادت ہے
جہاں گئے سو وہیں جان کا وبال رہی،واہ!

نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی

نکل رہی ہے مری جان میری موت کے بعد
جو میرے بارے میں لوگوں کی قیل و قال رہی

ہمی نے خود کو تماشہ بنا كے رکّھا ہے
وگرنہ اتنی کسی کی کہاں مجال رہی،واہ !



دعائیں لے لو بزرگوں کو مرتبہ دے کر
کہ یہ کمائی ہر اک دور میں حلال رہی، ماشاء اللہ !

دیے تو راہ میں جلتے رہے ہیں ، اے عابدؔ
وہ روشنی مگر آنكھوں میں خال خال رہی
شکیل صاحب ، پذیرائی كے لیے ممنون ہوں . جزاک اللہ . میں نے ’درار‘ ہی تحریر کیا تھا . پرانی لغات اور روایتی شاعری میں ’دراڑ‘ نظر آتا ہے ، لیکن جدید لغات اور شاعری میں ’دراڑ‘ اور ’درار‘ دونوں کا وجود ہے . میں ’درار‘ کو محض اِس لیے ترجیح دیتا ہوں کہ یہ زبان سے نسبتاََ زیادہ آسانی اور روانی سے ادا ہوتا ہے .
 
مجھے لگتا ہے کہ یہ شعر دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہو سکتا ہے۔ ایک تو وہ جو آپ کہہ رہی ہیں (وہ معاملہ خلافِ معمول سا بھی لگ رہا ہے) اور دوسرا اگر آخرت پر اسے منطبق کیا جائے تو کچھ یوں ہو گا کہ شاعر جسے خود میں ایک مثالی چیز سمجھتا رہا وہی اگلے جہان میں عیب ثابت ہو رہی ہے۔
روفی بھائی ، آخرت والا پہلو ، جو کہ میرے ذہن میں نہیں تھا ، نکال کر آپ نے اِس ناچیز شعر کا درجہ بلند کر دیا . میں تو صرف یہ عرض کر رہا تھا کہ بعض اوقات زندگی میں لوگ لحاظ یا مطلب پرستی میں تعریف کرتے ہیں ، لیکن مرنے كے بعد لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں .
 

صابرہ امین

لائبریرین
کچھ ایسے ڈھنگ سے پوچھی گئی تھی خواہشِ دِل
رہی امید ، نہ پِھر جُرأتِ سوال رہی
کیا بات ہے!
یہ صاف گوئ کی عادت بھی خوب عادت ہے
جہاں گئے سو وہیں جان کا وبال رہی
ہمی نے خود کو تماشہ بنا كے رکّھا ہے
وگرنہ اتنی کسی کی کہاں مجال رہی
خوبصورت اشعار سے مزین غزل۔۔ ڈھیروں داد قبول کیجیے۔۔
 
Top