عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ابھی حال ہی میں ارشد رشید صاحب نے اپنی غزل ’پِھر کسی چاند کی آہٹ سی لبِ بام رہی‘ عنایت فرمائی تھی . اِس غزل کی ردیف ’رہی‘ میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ میرے ذہن میں اٹک گئی اور ایک غزل كے چند اشعار کی ماخذ بنی . وہ اشعار نوک پلک سنوار کر یہاں پیش کر رہا ہوں . قافیہ اور بحر میں نے مختلف استعمال کیے ہیں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
کبھی نگاہ وہ مجھ پر نہ حسبِ حال رہی
ہمیشہ اس کی روش باعثِ ملال رہی
کچھ ایسے ڈھنگ سے پوچھی گئی تھی خواہشِ دِل
رہی امید ، نہ پِھر جُرأتِ سوال رہی
حسابِ عمرِ گذشتہ کیا تھا سارا دن
سو کل کی رات طبیعت بہت نڈھال رہی
ذرا سی بات سے رشتوں میں پڑ گئی ہے درار
وہ بات شیشۂ دِل میں جو بن كے بال رہی
یہ صاف گوئ کی عادت بھی خوب عادت ہے
جہاں گئے سو وہیں جان کا وبال رہی
نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی
ہمی نے خود کو تماشہ بنا كے رکّھا ہے
وگرنہ اتنی کسی کی کہاں مجال رہی
دعائیں لے لو بزرگوں کو مرتبہ دے کر
کہ یہ کمائی ہر اک دور میں حلال رہی
دیے تو راہ میں جلتے رہے ہیں ، اے عابدؔ
وہ روشنی مگر آنكھوں میں خال خال رہی
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ابھی حال ہی میں ارشد رشید صاحب نے اپنی غزل ’پِھر کسی چاند کی آہٹ سی لبِ بام رہی‘ عنایت فرمائی تھی . اِس غزل کی ردیف ’رہی‘ میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ میرے ذہن میں اٹک گئی اور ایک غزل كے چند اشعار کی ماخذ بنی . وہ اشعار نوک پلک سنوار کر یہاں پیش کر رہا ہوں . قافیہ اور بحر میں نے مختلف استعمال کیے ہیں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
کبھی نگاہ وہ مجھ پر نہ حسبِ حال رہی
ہمیشہ اس کی روش باعثِ ملال رہی
کچھ ایسے ڈھنگ سے پوچھی گئی تھی خواہشِ دِل
رہی امید ، نہ پِھر جُرأتِ سوال رہی
حسابِ عمرِ گذشتہ کیا تھا سارا دن
سو کل کی رات طبیعت بہت نڈھال رہی
ذرا سی بات سے رشتوں میں پڑ گئی ہے درار
وہ بات شیشۂ دِل میں جو بن كے بال رہی
یہ صاف گوئ کی عادت بھی خوب عادت ہے
جہاں گئے سو وہیں جان کا وبال رہی
نکل رہے ہیں مرے عیب میری موت كے بعد
تمام عمر مری شخصیت مثال رہی
ہمی نے خود کو تماشہ بنا كے رکّھا ہے
وگرنہ اتنی کسی کی کہاں مجال رہی
دعائیں لے لو بزرگوں کو مرتبہ دے کر
کہ یہ کمائی ہر اک دور میں حلال رہی
دیے تو راہ میں جلتے رہے ہیں ، اے عابدؔ
وہ روشنی مگر آنكھوں میں خال خال رہی
نیازمند ،
عرفان عابدؔ