عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک نئی غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
کب کہاں کوئی ارماں زندگی میں نکلا ہے
سارا وقت حسرت میں ، بےبسی میں نکلا ہے
آنکھ سے ہر اک آنسو بے کسی میں نکلا ہے
آسماں کو لگتا ہے ، دل لگی میں نکلا ہے
غیر کو کہا مجرم ، خود کو بےخطا جانا
عیب خودستائی کا ہر کسی میں نکلا ہے
سانپ بھی جو دیکھے تو اس سے خوف کھا جائے
زہر اِس قدر اکثر آدمی میں نکلا ہے
جس میں نسلِ آدم کو خود پہ ناز ہو جائے
اِس طرح کا اک لمحہ اک صدی میں نکلا ہے
دونوں ہی میں کلفت ہے ، اک میں آج اک میں کل
فرق اتنا ہی نیکی اور بَدی میں نکلا ہے
لے كے ہاتھ میں پتھر گھر سے لوگ نکلے ہیں
آج کوئی دیوانہ پِھر گلی میں نکلا ہے
میری جستجو آخر ختم تو ہوئی لیکن
جس کو ڈھونڈتا تھا میں وہ مجھی میں نکلا ہے
اپنی بات ہَم عابدؔ اور کس طرح کہتے
سارا درد سینے کا شاعری میں نکلا ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک نئی غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
کب کہاں کوئی ارماں زندگی میں نکلا ہے
سارا وقت حسرت میں ، بےبسی میں نکلا ہے
آنکھ سے ہر اک آنسو بے کسی میں نکلا ہے
آسماں کو لگتا ہے ، دل لگی میں نکلا ہے
غیر کو کہا مجرم ، خود کو بےخطا جانا
عیب خودستائی کا ہر کسی میں نکلا ہے
سانپ بھی جو دیکھے تو اس سے خوف کھا جائے
زہر اِس قدر اکثر آدمی میں نکلا ہے
جس میں نسلِ آدم کو خود پہ ناز ہو جائے
اِس طرح کا اک لمحہ اک صدی میں نکلا ہے
دونوں ہی میں کلفت ہے ، اک میں آج اک میں کل
فرق اتنا ہی نیکی اور بَدی میں نکلا ہے
لے كے ہاتھ میں پتھر گھر سے لوگ نکلے ہیں
آج کوئی دیوانہ پِھر گلی میں نکلا ہے
میری جستجو آخر ختم تو ہوئی لیکن
جس کو ڈھونڈتا تھا میں وہ مجھی میں نکلا ہے
اپنی بات ہَم عابدؔ اور کس طرح کہتے
سارا درد سینے کا شاعری میں نکلا ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ