غزل: کتنا بھی راہ میں ہو خطر ، جانا چاہیے

آداب ، دوستو!

ایک حالیہ غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

غزل

کتنا بھی راہ میں ہو خطر ، جانا چاہیے
ہو جائے جب کہ فرض سفر ، جانا چاہیے

وقت آ پڑے تو سینہ سپر جانا چاہیے
کر كے جہاں سے قطع نظر جانا چاہیے

ہر نوجواں کو اتنا تو کر جانا چاہیے
جینا ہو زیر جبر تو مر جانا چاہیے

کرنے لگے جو سانس بھی لینا کوئی مُحال
تو احتجاج حد سے گزر جانا چاہیے

آتا نہیں ہے کچھ بھی نظر اِس میں جز قتال
اب جامِ جم کو خون سے بھر جانا چاہیے

قاتل کو لے رہا ہے جو اپنی پناہ میں
الزام قتل اس ہی كے سَر جانا چاہیے

ایسے قدم اٹھاؤ کہ زنجیر ٹوٹ جائے
دار و رسن کو چاپ سے ڈر جانا چاہیے

دے دو خزانے چاہے امیروں کو سب ، مگر
مفلس کا بھی نصیب سنور جانا چاہیے

گلشن كے کاروبار سے فرصت ملے تو پِھر
صحرا میں بھی برائے سفر جانا چاہیے

منزل کی ہے طلب تو بہانوں سے کیا غرض
کوئی نہ ہمسفر ہو مگر جانا چاہیے

کیوں کر شکستہ دِل میں بھی سالم ہے شکل یار
شیشے کی طرح عکس بکھر جانا چاہیے

میں اہل شہر کا ہوں نشانہ تو کیا عجب
سودا جدھر ہے سنگ اُدھر جانا چاہیے

دامن بھی تار تار ہے ، سَر بھی لہو لہان
دریا جنوں کا اب تو اُتَر جانا چاہیے

اے وقت ، تیرا کام ہے رہنا رواں ، مگر
کوئی پکار لے تو ٹھہر جانا چاہیے

ڈھلنے لگی ہے رات بھی ، تارے بھی چھپ چلے
عؔابد تمہیں بھی لوٹ كے گھر جانا چاہیے​

نیازمند،
عرفان عؔابد
 
مدیر کی آخری تدوین:
ماشاء اللہ، عمدہ غزل ہے عرفان بھائی.

کرنے لگے جو سانس بھی لینا کوئی مُحال
تو احتجاج حد سے گزر جانا چاہیے
بات تو ٹھیک ہے ... لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں احتجاج کو حد سے گزارنا تو دور کی بات، ابھی اپ احتجاج کے ٹول پلازا سے کوئی چالیس پچاس کلومیٹر دور ہوں، تبھی سے غیر ملکی ایجنٹ ہونے کی سند اور تمغہائے غداری ملنا شروع ہوجاتے ہیں :)
 
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں عرفان عابد صاحب!
غزل عنایت کرنے کے لئے آپ کا بہت شکریہ! اللہ سلامت رکھے!

ظہیر صاحب ، آداب عرض ہے!

نوازش ، کرم ، شکریہ ، مہربانی! نگاہ کرم اور حوصلہ افزائی كے لیے ممنون ہوں .

نیازمند ،
عرفان عؔابد
 
ماشاء اللہ، عمدہ غزل ہے عرفان بھائی.

راحل صاحب ، آداب عرض ہے !

نوازش كے لیے ممنون ہوں . بہت بہت شکریہ !

بات تو ٹھیک ہے ... لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں احتجاج کو حد سے گزارنا تو دور کی بات، ابھی اپ احتجاج کے ٹول پلازا سے کوئی چالیس پچاس کلومیٹر دور ہوں، تبھی سے غیر ملکی ایجنٹ ہونے کی سند اور تمغہائے غداری ملنا شروع ہوجاتے ہیں :)

ہا ، ہا ! بھائی ، یہ المیہ صرف آپ كے وطن عزیز ہی کا نہیں ، تمام بر صغیر کا ، بلکہ دنیا كے بیشتر ممالک کا ہے . :)

نیازمند ،
عرفان عؔابد
 
آداب ، دوستو!

ایک حالیہ غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

غزل

کتنا بھی راہ میں ہو خطر ، جانا چاہیے
ہو جائے جب کہ فرض سفر ، جانا چاہیے

وقت آ پڑے تو سینہ سپر جانا چاہیے
کر كے جہاں سے قطع نظر جانا چاہیے

ہر نوجواں کو اتنا تو کر جانا چاہیے
جینا ہو زیر جبر تو مر جانا چاہیے

کرنے لگے جو سانس بھی لینا کوئی مُحال
تو احتجاج حد سے گزر جانا چاہیے

آتا نہیں ہے کچھ بھی نظر اِس میں جز قتال
اب جامِ جم کو خون سے بھر جانا چاہیے

قاتل کو لے رہا ہے جو اپنی پناہ میں
الزام قتل اس ہی كے سَر جانا چاہیے

ایسے قدم اٹھاؤ کہ زنجیر ٹوٹ جائے
دار و رسن کو چاپ سے ڈر جانا چاہیے

دے دو خزانے چاہے امیروں کو سب ، مگر
مفلس کا بھی نصیب سنور جانا چاہیے

گلشن كے کاروبار سے فرصت ملے تو پِھر
صحرا میں بھی برائے سفر جانا چاہیے

منزل کی ہے طلب تو بہانوں سے کیا غرض
کوئی نہ ہمسفر ہو مگر جانا چاہیے

کیوں کر شکستہ دِل میں بھی سالم ہے شکل یار
شیشے کی طرح عکس بکھر جانا چاہیے

میں اہل شہر کا ہوں نشانہ تو کیا عجب
سودا جدھر ہے سنگ اُدھر جانا چاہیے

دامن بھی تار تار ہے ، سَر بھی لہو لہان
دریا جنوں کا اب تو اُتَر جانا چاہیے

اے وقت ، تیرا کام ہے رہنا رواں ، مگر
کوئی پکار لے تو ٹھہر جانا چاہیے

ڈھلنے لگی ہے رات بھی ، تارے بھی چھپ چلے
عؔابد تمہیں بھی لوٹ كے گھر جانا چاہیے​

نیازمند،
عرفان عؔابد
خوبصورت خوبصورت!!
اوریجنل، کیا بات ہے!
 
Top