غزل : کسی بھی شاخ سے خیرات گھر لے کر نہیں آئے - اقبال ساجد

غزل
کسی بھی شاخ سے خیرات گھر لے کر نہیں آئے
گئے تھے باغ میں لیکن ثمر لے کر نہیں آئے

ہم اپنے کاغذی پھولوں کی خاطر مفت کی خوشبو
چمن میں لا تو سکتے تھے مگر لے کر نہیں آئے

ہمارے شب زدوں کو قرض کی عادت نہ پڑ جائے
اُجالوں کے نگر یوں سحر لے کر نہیں آئے

مسافر تو مسافت کی نشانی ساتھ لائے ہیں
مگر ہم کوئی سوغاتِ سفر لے کر نہیں آئے

وہاں ہر شہر کے پہلو میں اک لوہے کا جنگل تھا
مگر اک شاخِ پیوندی بھی گھر لے کر نہیں آئے

وہ گرد آلود چہرے جن کا مستقبل سنہری ہے
ہم ان کی راہ سے گردِ سفر لے کر نہیں آئے

اسی امید پر زر کی گھٹائیں خود تراشیں گے
پرائی چمنیوں سے ابرِ زر لے کر نہیں آئے

دُھوئیں کے زرگروں سے ہم نے ساجد کچھ نہیں سیکھا
گرہ میں گُر نہیں باندہ ہُنر لے کر نہیں آئے
اقبال ساجد
 
Top