محمد نعمان
محفلین
کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں
تراش کر جو زباں کو قلم اٹھاتے ہیں
قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
فریق آج یہ کیسی قسم اُٹھاتے ہیں
زمیں کی پُشت تحمل سے دُہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں
مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں
ہمیں بُجھانے کو اندر کا حبس کافی ہے
ہوا مزاجوں کا احسان کم اُٹھاتے ہیں
وہاں بھی ہم تو ستارہ سوار تھے کہ جہاں
بہت ہی سوچ سمجھ کے قدم اُٹھاتے ہیں
تراش کر جو زباں کو قلم اٹھاتے ہیں
قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
فریق آج یہ کیسی قسم اُٹھاتے ہیں
زمیں کی پُشت تحمل سے دُہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں
مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں
ہمیں بُجھانے کو اندر کا حبس کافی ہے
ہوا مزاجوں کا احسان کم اُٹھاتے ہیں
وہاں بھی ہم تو ستارہ سوار تھے کہ جہاں
بہت ہی سوچ سمجھ کے قدم اُٹھاتے ہیں