فرحان محمد خان
محفلین
غزل
کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں
ہمیں شعور کہاں تھا، حیات یوں ہے، کہ یوں
جو گِرد باد تھے اب ہیں وہ خاک اُفتاده
ہوائے دشت صدا زن ہے، یوں سکوں ہے، کہ یوں
خِرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ
ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں
لہو میں یوں تو لہکتی نہیں ہے کیا کیا لہر
مگر جو ایک تقاضائے اندروں ہے کہ یوں
عطائے علم کا یہ قرض کس طرح چُکتا
سرِ ادب ہے خمیدہ، قلم نگوں ہے کہ یوں
جہت، جہت کئی معنٰی کھلے تو باغ ہنسا
نگارِ گُل نے کہا یہ عجب فسوں ہے، کہ یوں
کہا کہ کیسے بیاں ہوں چراغ و خیمہ و خواب
دریدہ سینۂ گُل ، دیدہ پُر ز خوں ہے، کہ یوں
اگر قرینۂ تابندگی نہیں اخترؔ
تو پِھرجواز ہے کیا اور ضد ہی کیوں ہے، کہ یوں
اختر عثمان
کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں
ہمیں شعور کہاں تھا، حیات یوں ہے، کہ یوں
جو گِرد باد تھے اب ہیں وہ خاک اُفتاده
ہوائے دشت صدا زن ہے، یوں سکوں ہے، کہ یوں
خِرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ
ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں
لہو میں یوں تو لہکتی نہیں ہے کیا کیا لہر
مگر جو ایک تقاضائے اندروں ہے کہ یوں
عطائے علم کا یہ قرض کس طرح چُکتا
سرِ ادب ہے خمیدہ، قلم نگوں ہے کہ یوں
جہت، جہت کئی معنٰی کھلے تو باغ ہنسا
نگارِ گُل نے کہا یہ عجب فسوں ہے، کہ یوں
کہا کہ کیسے بیاں ہوں چراغ و خیمہ و خواب
دریدہ سینۂ گُل ، دیدہ پُر ز خوں ہے، کہ یوں
اگر قرینۂ تابندگی نہیں اخترؔ
تو پِھرجواز ہے کیا اور ضد ہی کیوں ہے، کہ یوں
اختر عثمان
مدیر کی آخری تدوین: