غزل: کوئی نہ یہاں نشّۂ پندار میں آئے

احباب گرامی، سلام عرض ہے!
کچھ عرصہ قبل جناب شوکت واسطی کی ایک نہایت عمدہ غزل نگاہ سے گزری . غزل کی زمین دل کو چھو گئی . اس غزل کے ایک مصرعے کو بطور طرح استعمال کر کے ایک کوشش کی ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازیے .

کوئی نہ یہاں نشّۂ پندار میں آئے
بکنے کو جو تیّار ہو، بازار میں آئے

چاہے نہ رہے آنکھ بصارت کی بھی حامل
ہرگز نہ کمی حسرتِ دیدار میں آئے

اندیشۂ تردیدِ گزارش ہو جو دل میں
’’اخلاص کہاں معرضِ اظہار میں آئے‘‘

ہم جب بھی ملے خود سے تو محسوس ہوا ہے
ہم جیسے کسی حلقۂ اغیار میں آئے

باقی نہ رہے کوئی امیدِ سحرِ نو
شدّت نہ کبھی اتنی شبِ تار میں آئے

اٹھتے ہی قدم ہو گئی آسان گزر گاہ
ایسے بھی مراحل رہِ دشوار میں آئے

نقصان کوئی باغ کو پہنچا نہیں سکتا
تفریق نہ جب تک کہ گل و خار میں آئے

عابدؔ نہ ملے داد مگر فکر تو جاگے
اتنی سی کشش تو مرےاشعار میں آئے

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب، اچھی غزل ہے عرفان بھائی۔
کوئی نہ یہاں نشّۂ پندار میں آئے
بکنے کو جو تیّار ہو، بازار میں آئے
بکنے کے "ب" پر زبر پڑھنا ہے یا زیر 🙂
چاہے نہ رہے آنکھ بصارت کی بھی حامل
ہرگز نہ کمی حسرتِ دیدار میں آئے
واہ بہت اچھے
باقی نہ رہے کوئی امیدِ سحرِ نو
شدّت نہ کبھی اتنی شبِ تار میں آئے
یہاں پر طوالت کا ذکر ہونا چاہیے نا؟
اٹھتے ہی قدم ہو گئی آسان گزر گاہ
ایسے بھی مراحل رہِ دشوار میں آئے
بجا فرمایا ۔۔۔۔
 
بہت خوب، اچھی غزل ہے عرفان بھائی۔

بکنے کے "ب" پر زبر پڑھنا ہے یا زیر 🙂

واہ بہت اچھے

یہاں پر طوالت کا ذکر ہونا چاہیے نا؟

بجا فرمایا ۔۔۔۔
روفی بھائی , نوازش کے لئے ممنون ہوں . بہت بہت شکریہ !
مطلع میں آپ زیر اور زبر دونوں پڑھ سکتے ہیں . آج کل بازار میں دونوں کی ڈمانڈ ہے . :)
پانچویں شعر میں رات طویل ہو یا شدید کالی , دونوں صورتوں میں صبح کی امید کم ہونے لگتی ہے .
 
اچھے اشعار ہیں جناب. غزل کی زمین سے مجھے تو غالب کی غزل ہی یاد آتی رہی:

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے
 
Top