عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی، سلام عرض ہے!
کچھ عرصہ قبل جناب شوکت واسطی کی ایک نہایت عمدہ غزل نگاہ سے گزری . غزل کی زمین دل کو چھو گئی . اس غزل کے ایک مصرعے کو بطور طرح استعمال کر کے ایک کوشش کی ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازیے .
کوئی نہ یہاں نشّۂ پندار میں آئے
بکنے کو جو تیّار ہو، بازار میں آئے
چاہے نہ رہے آنکھ بصارت کی بھی حامل
ہرگز نہ کمی حسرتِ دیدار میں آئے
اندیشۂ تردیدِ گزارش ہو جو دل میں
’’اخلاص کہاں معرضِ اظہار میں آئے‘‘
ہم جب بھی ملے خود سے تو محسوس ہوا ہے
ہم جیسے کسی حلقۂ اغیار میں آئے
باقی نہ رہے کوئی امیدِ سحرِ نو
شدّت نہ کبھی اتنی شبِ تار میں آئے
اٹھتے ہی قدم ہو گئی آسان گزر گاہ
ایسے بھی مراحل رہِ دشوار میں آئے
نقصان کوئی باغ کو پہنچا نہیں سکتا
تفریق نہ جب تک کہ گل و خار میں آئے
عابدؔ نہ ملے داد مگر فکر تو جاگے
اتنی سی کشش تو مرےاشعار میں آئے
نیازمند،
عرفان عابدؔ
کچھ عرصہ قبل جناب شوکت واسطی کی ایک نہایت عمدہ غزل نگاہ سے گزری . غزل کی زمین دل کو چھو گئی . اس غزل کے ایک مصرعے کو بطور طرح استعمال کر کے ایک کوشش کی ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازیے .
کوئی نہ یہاں نشّۂ پندار میں آئے
بکنے کو جو تیّار ہو، بازار میں آئے
چاہے نہ رہے آنکھ بصارت کی بھی حامل
ہرگز نہ کمی حسرتِ دیدار میں آئے
اندیشۂ تردیدِ گزارش ہو جو دل میں
’’اخلاص کہاں معرضِ اظہار میں آئے‘‘
ہم جب بھی ملے خود سے تو محسوس ہوا ہے
ہم جیسے کسی حلقۂ اغیار میں آئے
باقی نہ رہے کوئی امیدِ سحرِ نو
شدّت نہ کبھی اتنی شبِ تار میں آئے
اٹھتے ہی قدم ہو گئی آسان گزر گاہ
ایسے بھی مراحل رہِ دشوار میں آئے
نقصان کوئی باغ کو پہنچا نہیں سکتا
تفریق نہ جب تک کہ گل و خار میں آئے
عابدؔ نہ ملے داد مگر فکر تو جاگے
اتنی سی کشش تو مرےاشعار میں آئے
نیازمند،
عرفان عابدؔ