پیاسا صحرا
محفلین
کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دم کے پاس
غم ہے اس کے پاس ہمدم- اور وہ ہے دم کے پاس
غم ہے اس کے پاس ہمدم- اور وہ ہے دم کے پاس
ہم کو کیا ساقی، جو تھا جامِ جہاں بیں جم کے پاس
تیرا جامِ بادہ ہو -اور تو ہو اس پُر غم کے پاس
تیرا جامِ بادہ ہو -اور تو ہو اس پُر غم کے پاس
خط کہاں آغاز ہے پشتِ لبِ دلدار پر
ہیں جنابِ خضر آئے عیسیٰ ء مریم کے پاس
ہیں جنابِ خضر آئے عیسیٰ ء مریم کے پاس
مردمک کے پاس ہے یہ اشکِ خونیں کا ہجوم
یا دھرے یاقوت ہیں یہ دانۂ نیلم کے پاس؟
یا دھرے یاقوت ہیں یہ دانۂ نیلم کے پاس؟
روح اس آتش بجاں کی بعدِ مردن جوں پتنگ
آئے گی اڑ کر چراغِ خانۂ ماتم کے پاس
آئے گی اڑ کر چراغِ خانۂ ماتم کے پاس
کس کی قسمت ہے کہ زخمِ تیغِ قاتل ہو نصیب
جان سے جائیں- نہ جائیں گے مگر مرہم کے پاس
جان سے جائیں- نہ جائیں گے مگر مرہم کے پاس
کیا مزے لے لے کے گل کھائیں اگر آجائے ہاتھ
یہ جو چھلا آپ کی انگلی میں ہے خاتم کے پاس
یہ جو چھلا آپ کی انگلی میں ہے خاتم کے پاس
زلف سے بے وجہ خطِ سبز ہم پہلو نہیں
ہے لہکتا عشق پیچاں سنبلِ پُر خم کے پاس
ہے لہکتا عشق پیچاں سنبلِ پُر خم کے پاس
واہ صیّادِ اجل اور واہ صیّادی کا پیچ
کھچ کے ہے اسفند یار آیا کہاں رستم کے پاس
کھچ کے ہے اسفند یار آیا کہاں رستم کے پاس
دیکھو فیّاضِ ازل نے کیا دیا آنکھوں کو فیض
کاسہ در کف ہو کے یم آتے ہیں ان کی نم کے پاس
کاسہ در کف ہو کے یم آتے ہیں ان کی نم کے پاس
ہے جو قسمت میں تو دریا بھی کبھی ہو جائے گا
آ لگا ہے اپنا قطرہ بھی کنارِ یم کے پاس
آ لگا ہے اپنا قطرہ بھی کنارِ یم کے پاس
کر کے بحر و قافیہ تبدیل لکھ اور اک غزل
بیٹھ کوئی دم تو اے ذوق اور اس پُر غم کے پاس
بیٹھ کوئی دم تو اے ذوق اور اس پُر غم کے پاس
شیخ محمد ابراہیم