غزل : کون قسطوں میں جئے رات بسر ہونے تک - بیدل حیدری

غزل
کون قسطوں میں جئے رات بسر ہونے تک
زندگی چاہیے اعلانِ سحر ہونے تک

اُس کی فردوس میں کس منہ سے میں جاؤں واپس
وہ تو خوش تھا مرے فردوس بدر ہونے تک

کون ہوتی ہے یہ گردش کے نہیں ٹھہرے گی
ہر سفر ہے مرے محبوبِ سفر ہونے تک

اے مری تشنہ لبی کو نہ سمجھنے والو!
دیکھتے رہنا مجھے خون میں تر ہونے تک

ایک کشکول ہی ہاتھوں میں نہیں کانپتا تھا
میں بھی لرزاں تھا ترا دستِ نگر ہونے تک

گوزہ گر چاک کھماتا رہا صدیوں بیٹھا
وقت غائب رہا تکمیلِ ہنر ہونے تک

جشنِ بربادیِ دل کیوں نہ مناؤں بیدلؔ
میں بڑے کرب سے گزرا ہوں گھنڈر ہونے تک
بیدلؔ حیدری
 
Top