عمران صاحب، آداب۔
عروض کی پابند شاعری کی سب سے بڑی خوبصورتی میری نظر میں اس کی فطری موسیقیت ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر شاعر اعلیٰ پائے کا موسیقار بھی ہو اور خود کوئی دھن بنانے پر قادر ہو۔ اگر آواز اچھی ہو تو آدمی کسی بھی مشہور طرز پر اپنا کلام سنا سکتا ہے۔ آپ یوٹیوب پر ایسے شعراء کو سنیں جو اپنے ترنم کے لئے مشہور ہوں جیسے منظرؔ بھوپالی، مظفرؔ واثی مرحوم وغیرہ ۔۔۔ یا پھر کسی غزل گائیک کی مشہور غزلوں کو بغور سنیں۔ آپ کا جو بھی کلام اس بحر میں موزوں ہے، اسے اس طرز یا دھن میں روانی سے، بغیر اٹکے گنگنانے کی کوشش کریں۔ ذرا سی مشق سے آپ اپنے کلام کو ترنم کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہوجائیں گے۔ مثال کے طور پر آنجہانی جگجیت سنگھ کی مشہور غزل ہے ’’آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا‘‘۔ اس دھن میں ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر کوئی بھی غزل گائی جاسکتی ہے۔ بعینہ یہی معاملہ دیگر بحور کا بھی ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایک طرز یا دھن میں متعدد بحروں میں موزوں کلام کو گایا جاسکتا ہے۔ مثلاً، جگجیت سنگھ ہی کی گائی ایک غزل ہے ’’ہوش والوں کو خبر کیا، بےخودی کیا چیز ہے‘‘۔ یہ غزل رمل میں ہے یعنی فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔ اب اس دھن میں اس وزن کی تو ساری غزلیں گائی ہی جاسکتی ہیں مگر تھوڑی سی مشق سے بحر ہندی میں موزوں کلام بھی روانی سے گایا جاسکتا ہے۔
تو بھائی پھر کب عنایت کررہے ہیں ترنم کے ساتھ اپنا کلام؟؟؟