محمد تابش صدیقی
منتظم
کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں
جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں
نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے
ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں
نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر
ہم اپنے گھر کے دیے خود بجھائے بیٹھے ہیں
ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے بیٹھے ہیں
ہمارے دل میں ہیں محفوظ چند تاج محل
جنھیں ہم اپنا مقدر بنائے بیٹھے ہیں
زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں
ہم اپنی ذات سے اک عہد ہیں مگر اقبالؔ
ہم اپنے آپ کو قصداً بھلائے بیٹھے ہیں
٭٭٭
اقبالؔ عظیم
جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں
نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے
ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں
نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر
ہم اپنے گھر کے دیے خود بجھائے بیٹھے ہیں
ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے بیٹھے ہیں
ہمارے دل میں ہیں محفوظ چند تاج محل
جنھیں ہم اپنا مقدر بنائے بیٹھے ہیں
زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں
ہم اپنی ذات سے اک عہد ہیں مگر اقبالؔ
ہم اپنے آپ کو قصداً بھلائے بیٹھے ہیں
٭٭٭
اقبالؔ عظیم