غزل: کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

داغ دل کی لگی کا باقی ہے
درد اک بے کلی کا باقی ہے

ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے

باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے

نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے

اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے

گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس کی کجی کا باقی ہے

ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے

آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 
آخری تدوین:
داغ دل کی لگی کا باقی ہے
درد اک بے کلی کا باقی ہے

ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے

باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے

نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے

اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے

گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس کی کجی کا باقی ہے

ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے

آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
عمدہ غزل ہے ، شکیل بھائی ! داد حاضر ہے .
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب!

کیا کہنے!

ایک سے ایک عمدہ اشعار ہیں۔

ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے

باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے

اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے

ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے

آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے

ڈھیروں داد!
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
داغ دل کی لگی کا باقی ہے
درد اک بے کلی کا باقی ہے

ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے

باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے

نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے

اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے

گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس کی کجی کا باقی ہے

ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے

آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے
واہ۔ بہت خوب۔
ڈھیروں داد قبول کیجیے سر۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔آمین۔
 

مقبول

محفلین
داغ دل کی لگی کا باقی ہے
درد اک بے کلی کا باقی ہے

ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے

باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے

نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے

اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے

گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس کی کجی کا باقی ہے

ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے

آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
بہت خوبصورت کلام ۔ بہت داد
 
Top