محمد شکیل خورشید
محفلین
داغ دل کی لگی کا باقی ہے
درد اک بے کلی کا باقی ہے
ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے
باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے
نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے
اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے
گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس کی کجی کا باقی ہے
ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے
آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے
آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
درد اک بے کلی کا باقی ہے
ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض
روگ دیوانگی کا باقی ہے
باقی رستے سبھی تمام ہوئے
پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے
نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی
قرض پچھلی صدی کا باقی ہے
اور باقی نہیں ہے کوئی کمال
اک ہنر بندگی کا باقی ہے
گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر
جاہ اس کی کجی کا باقی ہے
ہو گئیں گم تمام آوازیں
شور اک خامشی کا باقی ہے
آؤ رستے نئے تلاش کریں
کچھ سفر زندگی کا باقی ہے
آنکھ پتھرا گئی شکیل مگر
اک تاثر نمی کا باقی ہے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر