حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل
کچھ پس انداز بد انجام وفا رکھی ہیں
محفلیں درد کی لوگوں سے جدا رکھی ہیں
اس کے آنے کی خبر اور مرا عالم شوق
اپنی آنکھیں سر دیوار سجا رکھی ہیں
فاصلے یوں ہی نہیں میں بھی غلط تم بھی غلط
یہ فصیلیں ہیں کہ جو ہم نے اٹھا رکھی ہیں
پاس کیسے کوئی آئے کہ مری جان جگر
تم نے اطراف میں دیواریں بنا رکھی ہیں
مجھ سے تم مانگ رہی ہو مری یادیں جاناں
میں نہیں دوں گا کہ وہ دل میں سما رکھی ہیں
اک تلاطم ہے کہ تھمتا ہی نہیں سینے میں
دل سمندر نے یہ موجیں سی بپا رکھی ہیں
تم سے جو بول نہ پایا وہ کہیں لکھ رکھوں
کتنی باتیں ہیں جو سینے میں چھپا رکھی ہیں
تلخیاں جان ہی لے لیں گی اگر سوچوں تو
کلفتیں ہوں بھی مگر میں نے بھلا رکھی ہیں
حق تو یہ ہے کہ پلٹ جائیں حقیقت کی طرف
ہم نے فرسودہ روایات روا رکھی ہیں
میں بچھاتا رہا آنکھوں کو ترے رستے میں
اب کسی طاق میں وہ آبلہ پا رکھی ہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ترا نام تو ہے
میں نے وہ ساری لکیریں ہی مٹا رکھی ہیں
تم دکھاوے کی محافل سے نکل جاؤ حسیب
شورشیں سازشی لوگوں نے بپا رکھی ہیں
حسیب احمد حسیب
کچھ پس انداز بد انجام وفا رکھی ہیں
محفلیں درد کی لوگوں سے جدا رکھی ہیں
اس کے آنے کی خبر اور مرا عالم شوق
اپنی آنکھیں سر دیوار سجا رکھی ہیں
فاصلے یوں ہی نہیں میں بھی غلط تم بھی غلط
یہ فصیلیں ہیں کہ جو ہم نے اٹھا رکھی ہیں
پاس کیسے کوئی آئے کہ مری جان جگر
تم نے اطراف میں دیواریں بنا رکھی ہیں
مجھ سے تم مانگ رہی ہو مری یادیں جاناں
میں نہیں دوں گا کہ وہ دل میں سما رکھی ہیں
اک تلاطم ہے کہ تھمتا ہی نہیں سینے میں
دل سمندر نے یہ موجیں سی بپا رکھی ہیں
تم سے جو بول نہ پایا وہ کہیں لکھ رکھوں
کتنی باتیں ہیں جو سینے میں چھپا رکھی ہیں
تلخیاں جان ہی لے لیں گی اگر سوچوں تو
کلفتیں ہوں بھی مگر میں نے بھلا رکھی ہیں
حق تو یہ ہے کہ پلٹ جائیں حقیقت کی طرف
ہم نے فرسودہ روایات روا رکھی ہیں
میں بچھاتا رہا آنکھوں کو ترے رستے میں
اب کسی طاق میں وہ آبلہ پا رکھی ہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ترا نام تو ہے
میں نے وہ ساری لکیریں ہی مٹا رکھی ہیں
تم دکھاوے کی محافل سے نکل جاؤ حسیب
شورشیں سازشی لوگوں نے بپا رکھی ہیں
حسیب احمد حسیب