غزل : کھلنے کی فصل بیت گئی ،جَھڑ کے سو رہو - اختر عثمان

غزل
کھلنے کی فصل بیت گئی ،جَھڑ کے سو رہو
دورِ خزاں شعار ہے ، بس پَڑ کے سو رہو

کیسا عجیب عشق ہے ، از صبح تا بہ شام
ہنستے رہو ، پہ رات پڑے لَڑ کے سو رہو

اک شکل قَرن قَرن سے خُفتہ ہے خون میں
ہستی ہے کم بساط ، اُسے گَھڑ کے سو رہو

بالیں پہ منتظر ہے کوئی لمحۂ وصال
یہ کیا کہ ایک بات پہ ہی اَڑ کے سو رہو

مٹّی کا شور شر ہے خلل خواب کے لیے
ایسا کرو کہ خود میں کہیں گَڑ کے سو رہو

اخترؔ خیالِ غنچہ دہن اور چاند رات
تارا سا اُن لبوں میں کہیں جَڑ کے سو رہو
اختر عثمان
 
Top