غزل کہتے ہیں

یوسف-2

محفلین
ghazal-1.jpg


ghazal-2.jpg


ghazal-3.jpg


ghazal-4.jpg


ghazal-5.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
غزل کہتے ہیں
غزل کے معروف شاعر جگر مراد آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ مرحوم خواتین کی غزل گوئی کے سخت خلاف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ "مجسم غزل" کی غزل گوئی چہ معنی دارد؟ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نے کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ کسی بھی شاعرہ کے مجموعہ کلام کو دیکھلے۔ غزل کے اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک تخلیق کار کی جنس واضح نہیں ہوتی شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو" کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر" رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کوبکو اس طرح پھیلی کہ اخباری رپورٹروں تک جا پہنچی۔ کم از کم کسی "نیک پروین" سے ایسی "ایکٹی ویٹی" کی توقع تو سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔​
بزم کی ایک حالیہ نشست میں اردو کی ایک معروف صنف سخن "غزل" پر بحث کی جا رہی تھی۔ بحث کیا ہو رہی تھی بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایک مجسم "غزل" کے سامنے )جو خیر سے غزل گو شاعرہ بھی ہیں( عصر حاضر کے چند نامور اہل قلم "غزل سرائی" فرما رہے تھے۔ اگر یہاں "غزل سرائی" والی بات آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو تو سمجھے سمجھانے کی خاطر یہ واقعہ سن لیجئے جس کےجھوٹا یا سچا ہونے کی ذمہ داری حسب دستور راوی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ہاں تو راوی کی روایت ہے کہ ایک طالبہ اپنے استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھی تھی اور استاد محترم تنگنائے غزل کی گتھیاں سلجھا رہے تھے کہ یکایک کچھ سوچ کر بولے : تمہیں معلوم ہے کہ غزل کے اصل معنی کیا ہیں؟ فرمانبردار شاگردہ کیا جواب دیتی سوالیہ نگاہوں سے استاد کی شکل تکنے لگی۔ استاد نے مسکراتے ہوئے کہا : بھئی! غزل کے لغوی معنی ہیں۔ "عورتوں سے باتیں کرنا" طالبہ جو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ شوخ بھی تھی اپنی سیاہ چمکدار آنکھیں گھماتے ہوئے بولی : "استاد محترم" ایک بات تو بتائیں یہ آپ مجھے پڑھا رہے ہیں یا غزل سرائی فرما رہے ہیں۔​
ہاں تو تذکرہ ہو رہا تھا مجسم غزل کی غزل سرائی کا۔۔۔ معاف کیجیے گا تذکروہ ہو رہا تھا، اہل بزم، کی غزل سرائی کا۔ بھئی قلم آخر قلم ہے جب چلتا ہے تو کبھی کبھی بہک بھی جاتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب بہکنے کی معقول وجوہ بھی موجود ہوں۔ ایسے میں تو اچھے اچھے ادیبوں کی زبان تک بہک جاتی ہے ہمارا تو صرف قلم ہی بہکا ہے جو بہکنے کے بعد کم از کم بہکے ہوئے لفظوں کو قلمزد بھی کر سکتا ہے جبکہ زبان سے نکلی ہوئی بات تو اس تیر کی مانند ہوتی ہے جو کمان سے نکل جائے۔​
دیکھئے ہم پھر اپنے موضوع سے بھٹکتے جا رہے ہیں۔ بات غزل کے تذکرے سے چلی تھی اور تیر کمان تک آ پہنچی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تیر اسی قلم ناتواں پر چل جائے اور جب کمین گاہ کی طرف نظر پڑے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے۔ یہ تو طے ہے کہ یہ وہی دوست ہوں گے جن کی "دوستی" پر آسماں اپنی دشمنی تک بھول جاتا ہے اور بھول کیا جاتا ہے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔​
 

شمشاد

لائبریرین
لہذا آئیے ہم آپ کو دوبارہ اسی بزم میں لئے چلتے ہیں جہاں "اُن" کے آتے ہی بقول طرفداران میر، علم و ادب کے جملہ چھوٹے بڑے حاضر "چراغوں" کی روشنی ماند سی پڑ گئی تھی۔ اگر آپ میر کے طرفداران میں شامل نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں خود انہی کا اعتراف نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ع​
سج گئی بزم رنگ و نور ایک نگاہ کے لئے​
بام پہ کوئی آ گیا، زینت ماہ کے لئے​
اب جب بزم میں "آنیوالا" خود اپنی آمد کی وجہ "بزم کی سجاوت" قرار دے تو ہم آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم نے "آنے والا" کی اصطلاح شعر میں موجود لفظ "آ گیا" کی رعایت سے لکھی ہے ورنہ آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ یہاں ہم دونوں کو علی الترتیب "آ گئی" اور آنے والی لکھنا چاہیے تھا کہ کم از کم اس طرح تذکیر و تانیث کی اتنی بڑی غلطی تو نہ ہوتی۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایسا کرنے سے شعر وزن سے گر جاتا۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔​
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک انٹرویو میں ایک شاعرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے تو موصوفہ نے نہایت بھولپن سے جواب دیا کہ میری شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بے مقصد شاعری کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ تاہم بار بار کے اصرار پر انہوں نے فرمایا غ "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے" آج ان کا پیغام جہاں تک پہنچ چکا ہے، اس کا یہاں اعادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اخبارات میں پہلے بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ زیر گفتگو بزم میں غزل پر گفتگو کے دوران جب قومی مقاصد کے تحت کی جانے والی شاعری کے حوالے سے علامہ اقبال کا ذکر آیا تو موصوفہ کو اقبال کی جملہ کلیات میں سے صرف ایک ہی مصرعہ قابل ذکر نظر آیا، مسکراتے ہوئے فرمانے لگیں : اقبال نے ع​
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا​
جیسی شاعری بھی تو کی ہے۔​
غزل اور اینٹی غزل کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی کہ گھٹن کی فضا میں روایتی غزل کبھی حالات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس کے لہجہ میں لامحالہ جھنجھلاہٹ اور احتجاج کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کی بے معنویت اور لغویت ہماری غزل میں در آئی ہے جسے بعض نقادان ادب نے "اینٹی غزل" کا نام دے رکھا ہے۔ تو بزم کی جان۔۔۔ میرا مطلب ہے بزم کی میزبان نے فرمایا : سابقہ گیارہ سالہ عہد آمریت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اب یہ ہمارا منصب نہیں کہ ہم سابقہ "عہد آمریت" اور موصوفہ کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں کیونکہ سب ہی جانتے ہیں موصوفہ آج جس "پوزیشن" میں ہین اس میں سابقہ عہد آمریت کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔​
نشست میں غزل کے حوالہ سے ترقی پسند تحریک کا بھی تذکرہ ہوا اور پھر اس تحریک کے حوالے سے نام نہاد انقلاب کی باتیں کی گئیں۔ ظاہر ہے مقصود بھی یہی تھا وگرنہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تحریک کا تعلق اگر کسی صنف شاعری سے تھا تو وہ نظم تھی نہ کہ غزل۔ گفتگو جاری تھی۔۔۔ اور میں اپنے دور درشن کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا، کیا عام گھریلو ادبی نشتوں کا معیار اس بزم سے بہتر نہیں ہوتا۔ پھر ہر پندھواڑے اس اہتمام کا فائدہ؟​
ع صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے​
 

یوسف-2

محفلین
پروین شاکر ایک ’’بیوروکریٹ‘‘ بھی تھیں۔سول سروسز کے امتحان میں وہ فیل ہوگئی تھیں۔ اور فیل بھی وہ اردو کے مضمون میں اور اردو میں بھی شاعری کے پرچہ میں۔ ہے نا حیرت والی بات۔ اس سے زیادہ حیرت والی بات یہ ہے کہ جن اشعار کی " غلط تشریح" میں ممتحن نے انہیں فیل کیا تھا، وہ اشعار محترمہ کے اپنے اشعار تھے۔ اور غالبا" اس وقت بھی ان کے مطبوعہ مجموعہ میں شامل تھے۔:D
جب محترمہ کو اپنے فیل ہونے کی اصل وجہ پتہ چلی تو انہوں نے ممتحن کے خلاف عدالتوں میں کیس کردیا۔ مقدمہ سپریم کورٹ تک چلا اور وہ مقدمہ ہر جگہ اس قانونی بنیاد پر ہارتی چلی گئیں کہ ممتحن کے مارکنگ کے فیصلہ کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف انہوں نے صدر مملکت سے اپیل کردی جو اُن کا قانونی حق تھا۔ تب جنرل محمد ضیا ء الحق نئے نئے مارشل لائی صدر تھے۔ انہوں نے اس بنیاد پر محترمہ کو فیل شدہ پرچہ میں پاس کرنے کا حکم دیا کہ شاعر اپنی تخلیقات کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ لہٰذا پروین شاکر نے اپنے اشعار کی جو بھی اور جیسی بھی تشریح کی ہے، وہ درست ہے۔ صدر ضیاء الحق کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تبدیل کرنے کے نتیجہ میں محترمہ پاکستان کسٹم میں افسر اعلیٰ بنیں، یہیں سے ڈیپیو ٹیشن پر امریکہ دو سال تک اردو پڑھانے گئیں اور تادم مرگ حکومت کی ’’ملازم‘‘ رہیں اور ہمیشہ ضیاء الحق کے خلاف ہی بولتی رہیں۔:)
ان کی موت کا قصہ بھی منفرد ہے۔ مگر اس سے قبل ان کی زندگی کا ایک اور منفرد واقعہ سن لیجئے۔ وہ شادی شدہ تھیں، مگر ان کا ایک عاشق بھی تھا جو اسلام آباد کا ایک معروف تاجر تھا۔ وہ شادی کے بعد بھی محترمہ کی پیچھے پڑا رہا کہ اپنے شوہر کو چھوڑو اور مجھ سے شادی کرلو۔ آخر دونوں میں یہ ’’ڈیل‘‘ ہوئی کہ تاجر صاحب اسلام آباد میں ایک بنگلہ محترمہ کے نام گفٹ کریں گے۔ اس کے بعد محترمہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر ان سے شادی کر لیں گی۔ حسبِ معاہدہ بنگلہ محترمہ کے نام ہوگیا، محترمہ نے اپنے شوہر سے طلاق بھی لے لی۔ لیکن تاجر سے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ تاجر صاحب نے ’’معاہدہ کی خلاف ورزی‘‘ پر عدالت میں محترمہ کے خلاف مقدمہ کردیا۔ ظاہر ہے وہ مقدمہ ہار گئے ۔ اخبارات میں اس مقدمہ کا بھی چرچا رہا۔
آخری برسوں میں محترمہ نے جنگ میں کالم نگاری بھی شروع کردی تھی جو بہت اعلیٰ درجہ کی تھی۔ ان کے کالم مقبول ہونے لگے۔ آخری آخری کالم انہوں نے پاکستان میں مغربی اور امریکی این جی اوز کو ایکسپوز کرنا شروع کردیا تھا۔ ابھی انہوں نے اس بارے میں چند ایک کالم ہی لکھے تھے کہ اسلام آباد میں ایک ٹرک نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماردی۔ وہ اسی ’’حادثہ ‘‘ میں اپنے اللہ کے حضور چل بسیں۔حادثی کے بعد فرار ہونے والا ٹرک ڈرائیور کبھی پکڑا نہ گیا اور اس حادثہ کی کوئی انکوائری بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی مقدمہ چلا۔ اہم ترین بات یہ کہ پاکستان کی اس مقبول ترین شاعرہ کی اس مشکوک موت پر پاکستان کے کسی ادیب و شاعر نے آواز تک نہ اٹھائی۔ رہے نام اللہ کا
 
Top