لہذا آئیے ہم آپ کو دوبارہ اسی بزم میں لئے چلتے ہیں جہاں "اُن" کے آتے ہی بقول طرفداران میر، علم و ادب کے جملہ چھوٹے بڑے حاضر "چراغوں" کی روشنی ماند سی پڑ گئی تھی۔ اگر آپ میر کے طرفداران میں شامل نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں خود انہی کا اعتراف نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ع
سج گئی بزم رنگ و نور ایک نگاہ کے لئے
بام پہ کوئی آ گیا، زینت ماہ کے لئے
اب جب بزم میں "آنیوالا" خود اپنی آمد کی وجہ "بزم کی سجاوت" قرار دے تو ہم آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم نے "آنے والا" کی اصطلاح شعر میں موجود لفظ "آ گیا" کی رعایت سے لکھی ہے ورنہ آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ یہاں ہم دونوں کو علی الترتیب "آ گئی" اور آنے والی لکھنا چاہیے تھا کہ کم از کم اس طرح تذکیر و تانیث کی اتنی بڑی غلطی تو نہ ہوتی۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایسا کرنے سے شعر وزن سے گر جاتا۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک انٹرویو میں ایک شاعرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے تو موصوفہ نے نہایت بھولپن سے جواب دیا کہ میری شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بے مقصد شاعری کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ تاہم بار بار کے اصرار پر انہوں نے فرمایا غ "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے" آج ان کا پیغام جہاں تک پہنچ چکا ہے، اس کا یہاں اعادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اخبارات میں پہلے بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ زیر گفتگو بزم میں غزل پر گفتگو کے دوران جب قومی مقاصد کے تحت کی جانے والی شاعری کے حوالے سے علامہ اقبال کا ذکر آیا تو موصوفہ کو اقبال کی جملہ کلیات میں سے صرف ایک ہی مصرعہ قابل ذکر نظر آیا، مسکراتے ہوئے فرمانے لگیں : اقبال نے ع
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
جیسی شاعری بھی تو کی ہے۔
غزل اور اینٹی غزل کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی کہ گھٹن کی فضا میں روایتی غزل کبھی حالات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس کے لہجہ میں لامحالہ جھنجھلاہٹ اور احتجاج کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کی بے معنویت اور لغویت ہماری غزل میں در آئی ہے جسے بعض نقادان ادب نے "اینٹی غزل" کا نام دے رکھا ہے۔ تو بزم کی جان۔۔۔ میرا مطلب ہے بزم کی میزبان نے فرمایا : سابقہ گیارہ سالہ عہد آمریت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اب یہ ہمارا منصب نہیں کہ ہم سابقہ "عہد آمریت" اور موصوفہ کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں کیونکہ سب ہی جانتے ہیں موصوفہ آج جس "پوزیشن" میں ہین اس میں سابقہ عہد آمریت کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔
نشست میں غزل کے حوالہ سے ترقی پسند تحریک کا بھی تذکرہ ہوا اور پھر اس تحریک کے حوالے سے نام نہاد انقلاب کی باتیں کی گئیں۔ ظاہر ہے مقصود بھی یہی تھا وگرنہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تحریک کا تعلق اگر کسی صنف شاعری سے تھا تو وہ نظم تھی نہ کہ غزل۔ گفتگو جاری تھی۔۔۔ اور میں اپنے دور درشن کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا، کیا عام گھریلو ادبی نشتوں کا معیار اس بزم سے بہتر نہیں ہوتا۔ پھر ہر پندھواڑے اس اہتمام کا فائدہ؟
ع صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے