محمد وارث
لائبریرین
کیا ذکرِ برگ و بار، یہاں پیڑ ہِل چکا
اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چکا
جب سوزنِ ہوا میں پرویا ہو تارِ خوں
اے چشمِ انتظار، ترا زخم سِل چکا
آنکھوں پہ آج چاند نے افشاں چُنی تو کیا
تارہ سا ایک خواب تو مٹّی میں مِل چکا
آئے ہوائے زرد کہ طوفان برف کا
مٹّی کی گود کر کے ہری، پھول کِھل چکا
بارش نے ریشے ریشے میں رس بھر دیا ہے اور
خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چکا
چُھو کر ہی آئیں منزلِ امّید ہاتھ سے
کیا راستے سے لوٹنا جب پاؤں چِھل چکا
اُس وقت بھی خموش رہی چشم پوش رات
جب آخری رفیق بھی دشمن سے مِل چکا
(پروین شاکر)
اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چکا
جب سوزنِ ہوا میں پرویا ہو تارِ خوں
اے چشمِ انتظار، ترا زخم سِل چکا
آنکھوں پہ آج چاند نے افشاں چُنی تو کیا
تارہ سا ایک خواب تو مٹّی میں مِل چکا
آئے ہوائے زرد کہ طوفان برف کا
مٹّی کی گود کر کے ہری، پھول کِھل چکا
بارش نے ریشے ریشے میں رس بھر دیا ہے اور
خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چکا
چُھو کر ہی آئیں منزلِ امّید ہاتھ سے
کیا راستے سے لوٹنا جب پاؤں چِھل چکا
اُس وقت بھی خموش رہی چشم پوش رات
جب آخری رفیق بھی دشمن سے مِل چکا
(پروین شاکر)