پروین شاکر غزل - کیا ذکرِ برگ و بار، یہاں پیڑ ہِل چکا - پروین شاکر

محمد وارث

لائبریرین
کیا ذکرِ برگ و بار، یہاں پیڑ ہِل چکا
اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چکا

جب سوزنِ ہوا میں پرویا ہو تارِ خوں
اے چشمِ انتظار، ترا زخم سِل چکا

آنکھوں پہ آج چاند نے افشاں چُنی تو کیا
تارہ سا ایک خواب تو مٹّی میں مِل چکا

آئے ہوائے زرد کہ طوفان برف کا
مٹّی کی گود کر کے ہری، پھول کِھل چکا

بارش نے ریشے ریشے میں رس بھر دیا ہے اور
خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چکا

چُھو کر ہی آئیں منزلِ امّید ہاتھ سے
کیا راستے سے لوٹنا جب پاؤں چِھل چکا

اُس وقت بھی خموش رہی چشم پوش رات
جب آخری رفیق بھی دشمن سے مِل چکا

(پروین شاکر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ قبلہ بہت اچھی غزل ہے - میرا خیال ہے آخری عمر میں شاید پروین نے اچھی شاعری بھی کی ہے اور مجھے اپنی رائے بدلنی ہی پڑے گی - :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب!

میرے ذاتی خیال میں پروین شاکر شاید اپنی نظموں کی بدولت زیادہ شہرت حاصل کر گئیں وگرنہ "خوشبو" جو کہ پہلی کتاب ہے اس میں شامل غزلیں انتہائی خوبصورت ہیں!
 
چُھو کر ہی آئیں منزلِ امّید ہاتھ سے
کیا راستے سے لوٹنا جب پاؤں چِھل چکا

بہت خوب ۔ ۔ ۔ صنف نازک کے احساسات کی ترجمانی پروین نےبہت عمدگی سے اپنی غزلیات کے ذریعے کی ہے
 
Top